وقت تیزی سے اور نسبتاً پُرسکون ہی گزر رہا تھا کہ 1965 کا ھنگامہ خیز سال آ گیا۔ صدارتی انتخابات 1965 کے آغاز میں ہوئے۔ اور ستمبر میں بھارت کے ساتھ جنگ چھڑ گئی۔
مجھے سابق صدر براک اوباما کی پہلی تقریبِ حلف برداری یاد آ رہی ہے جو چند خوب صورت ترین تقاریب میں سے ایک تھی۔ میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ وائس آف امریکہ کی اردو سروس نے اس تقریب کی لائیو نشریات کے دوران اس پر رواں تبصرے کے لیے مجھے چنا تھا۔
میں کہاں اور ایوب خان کہاں، لیکن یہ تمام ان تقریروں کا کمال تھا جو میرے اسکول کے اساتذہ نے مجھے لکھ لکھ کر دیں اور ایسا ماہر کر دیا کہ آج تک اسی بولنے کے سہارے زندگی گزر رہی ہے۔
میرے اللہ نے کتنا سہل رکھا ہے اپنے گھر کا سفر۔ دنیا میں کیا کیا جال بچھے ہوتے ہیں کہ دل ہر شے میں اٹکا رہتا ہے۔ مگر جب نقّارہ بجتا ہے تو سب ٹھاٹ پڑا رہ جاتا ہے اور بندہ دو سفید چادروں میں سوئے عدم ہوتا ہے
’اور آخرِ کار، وزیر اعظم نواز شریف نے پُرجوش عوام کی اکثریت کا فیصلہ مان لیا اور 28 مئی کو بلوچستان کے مقام چاغی پر یہ دھماکے کئے‘
اِس افسانوی انتخاب میںٕ اردو کے کلاسیکل دور سے لے کر جدید دور کے بہت سے نمائندہ افسانے آپ کو سننے کو ملیں گے