بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کی دست کاریاں مشہور ہیں۔ یہاں کی پشمینہ شال ہو، ہاتھ کی کڑھائی یا قالین بافی ہر چیز کے لیے بنیادی جز رنگین دھاگا ہے۔ کشمیر میں دھاگے رنگنے کا کام دو صدی پرانا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کام بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ زبیر ڈار کی رپورٹ۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بندوق سازی صنعت کا درجہ رکھتی تھی جو اب صرف دو فیکٹریوں تک محدود رہ گئی ہے۔ یہ دو فیکٹریاں بھی اب نئی بندوقیں بنانے کے بجائے پرانی گنز کی مرمت کا ہی کام کرتی ہیں۔ کشمیر میں بندوق سازی کی صنعت کے عروج و زوال کی داستان لائے ہیں سرینگر سے زبیر ڈار۔
لکڑی پر بنے نقش و نگار اور مغلیہ دور کی یاد تازہ کرتا جندری کا فن وقت گزرنے کے ساتھ معدوم ہو رہا ہے۔ لیکن پاکستان میں ایک خاندان ایسا بھی ہے جن کا آبائی پیشہ ہی جندری کا کام ہے اور وہ اس فن کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مزید جانیے نذرالاسلام کی رپورٹ میں۔
کیا آپ نے کبھی گدھوں اور گھوڑوں کے جوتے دیکھے ہیں؟ جو نظر تو کم آتے ہیں لیکن ان کے پاؤں کی پوری حفاظت کرتے ہیں۔ ان جوتوں کو نعل کہا جاتا ہے۔ لاہور میں اب نعل بنانے اور لگانے والے کم ہی رہ گئے ہیں۔ ثمن خان ملوا رہی ہیں کچھ ہنر مندوں سے جو نہ صرف گھوڑوں کے جوتے بناتے ہیں بلکہ انہیں پہناتے بھی ہیں۔
نئے کپڑے اگر پھٹ جائیں تو کچھ لوگ افسوس کرتے ہوئے انہیں رد کر دیتے ہیں اور کچھ رفو گر کو تلاش کرتے ہیں، لیکن اب رفو گر بھی نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ ملیے لاہور کے کرامت علی سے جو تقریباً 40 برس سے رفو گری کر رہے ہیں لیکن ان کے بقول اب بیشتر لوگوں کو اس کام کی قدر نہیں۔ کرامت علی کی کہانی ان ہی کی زبانی
لاہور میں گھوڑے شاہ نامی دربار پر لوگ کسی زمانے میں سونے چاندی کے گھوڑوں کے چڑھاوے دیتے تھے۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ مٹی سے بنے گھوڑوں نے ان کی جگہ لے لی جنہیں گھگھو گھوڑے کہا جاتا تھا۔ اب گھگھو گھوڑے ملتے ہیں نہ انہیں بنانے والے فن کار۔ دیکھیے 'متروک پیشوں' پر وی او اے کی سیریز کا نواں حصہ
لاہور کے ضیاء الدین آلاتِ موسیقی بنانے اور مرمت کرنے کا کام گزشتہ 60 برسوں سے کر رہے ہیں لیکن انہوں نے اپنے چار بچوں کو یہ کام نہیں سکھایا۔ ضیاء الدین کا کہنا ہے کہ اس کام میں کوئی منافع نہیں، وہ صرف بطور فن اسے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 'متروک پیشوں' پر وائس آف امریکہ کی خصوصی سیریز کا آٹھواں حصہ۔
اونٹ کی ہڈی کو مختلف شکلوں میں ڈھالنا ایک ایسا فن ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ اس فن کے ماہر عبد الرحیم نسل در نسل اس پیشے سے جڑے ہوئے تھے۔ یہ فن ان تک کیسے پہنچا اور اس کا مستقبل کیا ہے؟ دیکھیے 'متروک پیشوں' پر وائس آف امریکہ کی سیریز کا ساتواں حصہ
برقی آلات اور جدید مشینیں صدیوں پرانی ٹیکنالوجی کو ختم کر رہی ہیں۔ برقی چکیاں آ جانے سے پن چکیوں کا استعمال متروک ہوتا جا رہا ہے۔ پن چکیاں جو پہلے اکثر پہاڑی علاقوں میں جگہ جگہ پائی جاتی تھیں، اب خال خال ہی دکھائی دیتی ہیں۔ دیکھیے 'متروک پیشوں' پر وائس آف امریکہ کی خصوصی سیریز کا چھٹا حصہ
بلوچستان میں چمڑے پر کشیدہ کاری کا فن صدیوں پرانا ہے۔ اس فن کو زندہ رکھنے والا ایک ہی خاندان بچا ہے۔ بزرگ کاری گر ماما حسن کہتے ہیں کہ چمڑے پر کشیدہ کاری کو پسند کیا جاتا ہے اس لیے وہ اس فن کو نئی نسل میں منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ متروک پیشوں پر دیکھیے وائس آف امریکہ کی خصوصی سیریز کا پانچواں حصہ
رباب پشتو موسیقی کا لازمی حصہ ہے۔ اس آلۂ ساز کی مقبولیت اور رباب بجانے والوں کی تعداد تو بڑھ رہی ہے لیکن بنانے والے کاریگر چند ایک ہی رہ گئے ہیں۔ رباب کیسے بنایا جاتا ہے اور یہ کام کیوں زوال پذیر ہے؟ دیکھیے اس ڈیجیٹل ویڈیو میں۔ 'متروک پیشوں' پر وائس آف امریکہ کی خصوصی سیریز کا چوتھا حصہ
ہنسی مذاق کرنے والے کو پنجابی معاشرے میں اکثر بھانڈ کا لقب دے دیا جاتا ہے۔ نئی نسل نے یہ اصطلاح تو سنی ہو گی لیکن بھانڈوں سے واسطہ شاید ہی پڑا ہو گا۔ جگت بازی، چرب زبانی اور طنز و مزاح کے لیے مشہور بھانڈوں کا روزگار بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ دیکھیے 'متروک پیشوں' پر وائس آف امریکہ کی سیریز کا تیسرا حصہ
مزید لوڈ کریں