کراچی کے رضوان عالم تقریباً ایک برس سے سموسوں کا اسٹال لگا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان حالات میں کام کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں رضوان کو اخراجات اٹھانے میں کیا مشکلات پیش آتی ہیں؟ جانیے ان ہی کی زبانی۔
کوئٹہ کے محمد ریاض کئی برس سے درزی کا کام کر رہے ہیں۔ دن بہ دن بڑھتی مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں اضافے نے ان کے اخراجات ڈبل کر دیے ہیں لیکن آمدن میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ محمد ریاض کے بقول ہر ماہ انہیں اپنے گھریلو اخراجات کے لیے کسی نہ کسی سے قرض لینا پڑتا ہے۔ محمد ریاض کی کہانی دیکھیے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے شاہد ہارون گزشتہ 30 سے 35 برسوں سے پان کا کیبن چلا رہے ہیں۔ شاہد کہتے ہیں کہ پہلے وہ چھ گھنٹے کام کرتے تھے اب مزید 12 گھنٹے کام کر کے بھی گھر کا گزر بسر نہیں کر پا رہے۔ وائس آف امریکہ کی خصوصی سیریز 'جیئیں تو کیسے' میں شاہد کی مشکلات سنیے انہی کی زبانی۔
صفدر عباس گزشتہ 15 برسوں گاڑیوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کر رہے ہیں۔ صفدر کہتے ہیں کہ پہلے مہینے میں 10، 12 سودے ہوتے تھے لیکن اب لوگوں کا گاڑی کی خریداری کا رجحان بہت کم ہو گیا ہے اور جس سے بھی بات کریں اس کا کہنا ہوتا ہے کہ گاڑی بھی مہنگی ہے اور پیٹرول بھی۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے علی رضا گزشتہ 12 برس سے گھروں میں مالی کا کام کر رہے ہیں۔ علی کہتے ہیں کہ ان کی ماہانہ آمدن 35 سے 40 ہزار ہے لیکن اس مرتبہ ان کا بجلی کا بل 17 ہزار روپے آگیا ہے۔ علی رضا کو مہنگائی اور بلوں کی وجہ سے کن مشکلات کا سامنا ہے؟ جانیے نوید نسیم کی اس ویڈیو میں۔
صدف زہرا کراچی کی ایک اسکول ٹیچر ہیں جو مہنگائی کے باعث آمدن اور اخراجات کے بگڑتے توازن سے پریشان ہیں۔ وہ اور ان کے شوہر دونوں ملازمت کرتے ہیں لیکن زندگی کی گاڑی چلانا پھر بھی مشکل ہو رہا ہے۔ صدف کی کہانی سنتے ہیں انہی کی زبانی۔
پاکستان میں مہنگائی کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم طلبہ کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ جنوبی پنجاب کے علاقے فورٹ عباس سے تعلق رکھنے والے ارمغان محمود لاہور کی جامعہ پنجاب میں زیر تعلیم ہیں۔ مہنگائی سے ان کی زندگی پر کیا فرق پڑا ہے؟ جانتے ہیں انہی کی زبانی۔
راؤ ذوالفقار علی کراچی میں ایک سپر اسٹور کے مالک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں مسلسل بڑھتی مہنگائی لوگوں کی قوت خریدکو شدید متاثرکررہی ہے۔ پہلے انہیں دو سے تین لاکھ روپے تک ماہانہ منافع ہوتا تھا لیکن اب ایک پائی بھی نہیں بچ رہی۔ راؤ ذوالفقار کی کہانی جانیے انہی کی زبانی۔
تنویر علی لاہور کے بازاروں میں مزدوری کرتے ہیں جس سے انہیں بمشکل اتنی ہی آمدن ہوتی ہے کہ بس گھر چل جائے۔ بچوں کی پڑھائی اور ان کی خواہشات پوری کرنے کا وہ صرف سوچ سکتے ہیں۔ مہنگائی نے تنویر کی زندگی پر کیا اثرات ڈالے ہیں؟ جانیے انہی کی زبانی۔
محمد عامر کوئٹہ میں بس چلاتے ہیں۔ قلیل آمدنی اور مہنگائی سے پریشان عامر کہتے ہیں کہ ان کے مالی حالات اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کیسے زندگی گزاریں؟ محمد عامر کی کہانی دیکھیے انہی کی زبانی۔
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں کے دوران بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال نے صحافت کے پیشے کوشدید طورپر متاثر کیا ہے۔ ملک میں سینکڑوں صحافیوں کو تنخواہوں کی عدم فراہمی کا سامنا ہے جس سے ناصرف ان کارکردگی بلکہ ذہنی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ نذر الاسلام کی رپورٹ۔
عمران اقبال لاہور میں گزشتہ 28 سال سے رکشہ چلا رہے ہیں۔ دن میں 15 گھنٹے کام کرنے کے باوجود ان کی آمدن سے گھریلو اخراجات پورے نہیں ہوتے اور انہیں لوگوں سے ادھار مانگنا پڑتا ہے۔ ان کے بقول مہنگائی نے سفید پوشوں کا بھرم ختم کر دیا ہے۔ عمران اقبال کی کہانی انہی کی زبانی۔
مزید لوڈ کریں