پاکستانی آئی ایس آئی کےسربراہ، لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام سی آئی کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس سے ملاقات کے لیے واشنگٹن میں ہیں، جو کہ ایک برس قبل پاکستان میں ایک خفیہ امریکی چھاپے میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد اُن کا پہلا دورہ ہے۔
تاہم، وائس آف امریکہ کے شین مارونی کی رپورٹ کےمطابق بند کمرے میں ہونے والی انسداد دہشت گردی سے متعلق اِس تازہ ترین بات چیت کا شاید ہی کوئی خاص نتیجہ نکلے۔
پاکستان کی طرف سے گذشتہ ماہ افغانستان کے لیے نیٹو رسد کی بحالی کے بعد سال بھر سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعطل کے شکار تعلقات میں پھر سے بہتری آنے لگی ہے۔ تاہم، ایسے میں جب آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس سے ملاقات کرنے والے ہیں،تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ پیش رفت مختصر ثابت ہوگی۔
پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں اور افغانستان کے ساتھ سرحدی بارڈر سکیورٹی کے معاملے پر طرفین کے درمیان سخت اختلافات ہیں۔
امریکہ پاکستان میں شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملےبند کرنے یا اسلام آباد کے ساتھ
اس ٹیکنالوجی میں اشتراک کرنے سے انکار کرتا ہے۔
ساتھ ہی، امریکی حکام ملک میں شدت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں کا قلع قمع کرنے کے لیے پاکستان پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اطلاعات قمر زماں کائرہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ غلط کر رہا ہے۔
اُن کے بقول، سرحد کی دوسری طرف کا کنٹرول امریکی افواج کے پاس ہے، جہاں اُن کو دھیان مرکوز کرنا چاہیئے۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے، یہاں کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے۔
کائرہ نے کہا کہ شدت پسندوں کی پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں۔ پاکستان کی فوج افغانستان پر درانداز ی کا الزام لگاتی ہے جس کے باعث گذشتہ برس کے دوران اس کے 100سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
امریکی حکام اس بات کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ پاکستان شدت پسندوں سے نمٹے، مثلاً القاعدہ سے منسلک حقانی نیٹ ورک، جس کےبارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ہے۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ گروپ کابل اور مشرقی افغانستان میں ہونے والے دیدہ دلیرانہ حملوں میں ملوث رہا ہے، مثلاً پہلی جون کو پاکستانی سرحد سے قریب واقع امریکی اڈے پر ہونے والا حملہ۔
حقانی نیٹ ورک نے اس حملے کی وڈیو یوٹیوب پر ڈالی ہے۔ اس کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی۔
احمد ماجدیار ’امریکین انٹرپرائیز انسٹی ٹیوٹ‘ میں ایک تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے میں جب نیٹو 2014ء میں افغانستان سے لڑاکا فوجیں نکالنےکی تیاری کر رہا ہے، اِن واقعات سے امریکہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی وقت مستقبل قریب میں پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا تو امریکہ کو یکطرفہ کارروائی کرنی پڑے گی، کیونکہ افغان حکومت کے لیے یہ ایک جاری خطرے کی حیثیت رکھتا ہے۔
ماجد یار کہتے ہیں کہ یہ مزید ڈرون حملوں یا پھر کمانڈو ایکشن کی صورت میں ہو سکتا ہے، جیسا کہ پاکستان میں القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کے خلاف کیا گیا تھا۔
تاہم، اُنھوں نے انتباہ کیا کہ اس طرح کا راستا اپنانا امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں خرابی کا باعث بن سکتا ہے۔
تاہم، وائس آف امریکہ کے شین مارونی کی رپورٹ کےمطابق بند کمرے میں ہونے والی انسداد دہشت گردی سے متعلق اِس تازہ ترین بات چیت کا شاید ہی کوئی خاص نتیجہ نکلے۔
پاکستان کی طرف سے گذشتہ ماہ افغانستان کے لیے نیٹو رسد کی بحالی کے بعد سال بھر سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعطل کے شکار تعلقات میں پھر سے بہتری آنے لگی ہے۔ تاہم، ایسے میں جب آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس سے ملاقات کرنے والے ہیں،تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ پیش رفت مختصر ثابت ہوگی۔
پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں اور افغانستان کے ساتھ سرحدی بارڈر سکیورٹی کے معاملے پر طرفین کے درمیان سخت اختلافات ہیں۔
امریکہ پاکستان میں شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملےبند کرنے یا اسلام آباد کے ساتھ
اس ٹیکنالوجی میں اشتراک کرنے سے انکار کرتا ہے۔
ساتھ ہی، امریکی حکام ملک میں شدت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں کا قلع قمع کرنے کے لیے پاکستان پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اطلاعات قمر زماں کائرہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ غلط کر رہا ہے۔
اُن کے بقول، سرحد کی دوسری طرف کا کنٹرول امریکی افواج کے پاس ہے، جہاں اُن کو دھیان مرکوز کرنا چاہیئے۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے، یہاں کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے۔
کائرہ نے کہا کہ شدت پسندوں کی پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں۔ پاکستان کی فوج افغانستان پر درانداز ی کا الزام لگاتی ہے جس کے باعث گذشتہ برس کے دوران اس کے 100سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
امریکی حکام اس بات کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ پاکستان شدت پسندوں سے نمٹے، مثلاً القاعدہ سے منسلک حقانی نیٹ ورک، جس کےبارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ہے۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ گروپ کابل اور مشرقی افغانستان میں ہونے والے دیدہ دلیرانہ حملوں میں ملوث رہا ہے، مثلاً پہلی جون کو پاکستانی سرحد سے قریب واقع امریکی اڈے پر ہونے والا حملہ۔
حقانی نیٹ ورک نے اس حملے کی وڈیو یوٹیوب پر ڈالی ہے۔ اس کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی۔
احمد ماجدیار ’امریکین انٹرپرائیز انسٹی ٹیوٹ‘ میں ایک تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے میں جب نیٹو 2014ء میں افغانستان سے لڑاکا فوجیں نکالنےکی تیاری کر رہا ہے، اِن واقعات سے امریکہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی وقت مستقبل قریب میں پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا تو امریکہ کو یکطرفہ کارروائی کرنی پڑے گی، کیونکہ افغان حکومت کے لیے یہ ایک جاری خطرے کی حیثیت رکھتا ہے۔
ماجد یار کہتے ہیں کہ یہ مزید ڈرون حملوں یا پھر کمانڈو ایکشن کی صورت میں ہو سکتا ہے، جیسا کہ پاکستان میں القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کے خلاف کیا گیا تھا۔
تاہم، اُنھوں نے انتباہ کیا کہ اس طرح کا راستا اپنانا امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں خرابی کا باعث بن سکتا ہے۔