صدر براک اوباما نے متنبہ کیا ہے کہ اگر شامی صدر بشارالاسد کی حکومت نے باغیوں کےخلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تو اِسے مدِ نظر رکھتے ہوئے امریکہ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ تنازع سے کس طرح نبردآزما ہوا جائے۔
پیر کو وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں سے بات چیت میں مسٹر اوباما نےکہا کہ اگر شام نے ایسے ہتھیاروں کا استعمال کیا، تو اُن کے بقول، یہ ایک ’ریڈ لائن‘ ہوگی جوساری صورتِ حال کے دائرے کو بدل ڈالے گی۔
صدر نے توجہ دلائی کہ اُنھوں نے شام کے معاملے میں اب تک کسی امریکی فوجی کارروائی کے احکامات صادر نہیں کیے، تاہم اُنھوں نے کہا کہ امریکہ صورتِ حال کا بہت ہی سنجیدگی سے جائزہ لے رہا ہے۔
اس سے قبل پیر کے ہی دِن اقوام متحدہ کے مبصر مشن کے ارکان شام کے دارالحکومت دمشق سےروانہ ہوگئے، جب جنگ بندی کی نگرانی سے متعلق اُن کی تعیناتی کا مینڈیٹ پورا ہوا، جب کہ دراصل جنگ بندی کبھی عمل میں آئی ہی نہیں تھی۔
مبصرین پیر کے روز لبنان روانہ ہوئے۔ اب تک اُن کی مختصر تعداد شام میں موجود تھی۔ جب کہ ایک وقت تھا کہ اُن کی تعداد 300تک ہوا کرتی تھی۔
توقع ہے کہ باقی ماندہ مبصرین رواں ہفتے کے آخر تک شام سےنکل جائیں گے۔ مشن کا مینڈیٹ اتوار کو مکمل ہوا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام میں رابطہ دفتر کے لیے فقط چند مبصرین رکھنے کی اجازت دی ہے، تاکہ مستقبل میں امن کی کسی کوشش میں مددفراہم کی جاسکے۔
یہ مبصرین سابق بین الاقوامی ایلچی کوفی عنان کے اُس منصوبے کا جزو تھے جِس کا مقصد ملک میں جاری تشدد کا خاتمہ تھا۔ لیکن، خون خرابہ جاری رہا جس کے باعث جون میں مشن کو اپنا کام معطل کرنا پڑا۔
عنان نے اسی ماہ کے آغاز پر ذمہ داری سےاستعفیٰ دے دیا، جب کہ الجزائر کے سابق سفارت کار لخدار براہیمی نے شام کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہٴ خصوصی کے طور پر فرائض سنبھال لیے ہیں۔
پیر کو وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں سے بات چیت میں مسٹر اوباما نےکہا کہ اگر شام نے ایسے ہتھیاروں کا استعمال کیا، تو اُن کے بقول، یہ ایک ’ریڈ لائن‘ ہوگی جوساری صورتِ حال کے دائرے کو بدل ڈالے گی۔
صدر نے توجہ دلائی کہ اُنھوں نے شام کے معاملے میں اب تک کسی امریکی فوجی کارروائی کے احکامات صادر نہیں کیے، تاہم اُنھوں نے کہا کہ امریکہ صورتِ حال کا بہت ہی سنجیدگی سے جائزہ لے رہا ہے۔
اس سے قبل پیر کے ہی دِن اقوام متحدہ کے مبصر مشن کے ارکان شام کے دارالحکومت دمشق سےروانہ ہوگئے، جب جنگ بندی کی نگرانی سے متعلق اُن کی تعیناتی کا مینڈیٹ پورا ہوا، جب کہ دراصل جنگ بندی کبھی عمل میں آئی ہی نہیں تھی۔
مبصرین پیر کے روز لبنان روانہ ہوئے۔ اب تک اُن کی مختصر تعداد شام میں موجود تھی۔ جب کہ ایک وقت تھا کہ اُن کی تعداد 300تک ہوا کرتی تھی۔
توقع ہے کہ باقی ماندہ مبصرین رواں ہفتے کے آخر تک شام سےنکل جائیں گے۔ مشن کا مینڈیٹ اتوار کو مکمل ہوا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام میں رابطہ دفتر کے لیے فقط چند مبصرین رکھنے کی اجازت دی ہے، تاکہ مستقبل میں امن کی کسی کوشش میں مددفراہم کی جاسکے۔
یہ مبصرین سابق بین الاقوامی ایلچی کوفی عنان کے اُس منصوبے کا جزو تھے جِس کا مقصد ملک میں جاری تشدد کا خاتمہ تھا۔ لیکن، خون خرابہ جاری رہا جس کے باعث جون میں مشن کو اپنا کام معطل کرنا پڑا۔
عنان نے اسی ماہ کے آغاز پر ذمہ داری سےاستعفیٰ دے دیا، جب کہ الجزائر کے سابق سفارت کار لخدار براہیمی نے شام کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہٴ خصوصی کے طور پر فرائض سنبھال لیے ہیں۔