رسائی کے لنکس

تاج اور حجاب کی محبوب ترین تخلیق، یاسمین طاہر


یاسمین طاہر
یاسمین طاہر

’کوئی ایک ایسا دن نہیں ہےجب میں نے اپنے کام کوبوجھ تصور کیا۔ میرے لیے ریڈیو پر جانا ایک عجیب سی کیفیت تھی—پہلے ہر دِن ایک نیادِن لگتا تھا—میں نے کبھی بھی ریڈیو پر کام کو ملازمت نہیں سمجھا‘

یاسمین طاہر سے بات کرنا آسان بھی ہے اور دشوار بھی۔ اِس لیے نہیں کہ اُن کی شخصیت کے کئی پرت ہیں اور ایک کے بعد دوسری طرف بات چلی جاتی ہے، بلکہ اِس لیے کہ اُن کا تعلق ایک انتہائی با صلاحیت خاندان سے ہے۔ والدین کی بات ہو تو انارکلی جیسے المیے کے خالق امتیاز علی تاج اور انیسویں صدی کے اوائل میں اردو ادب میں فرانسیسی دریچوں اور بیلوں سے گھر ے ہوئے گھروں کی رومانوی کہانیاں لکھنے والی حجاب امتیاز علی جیسے والدین، تھیٹر اور ادب کی دنیا میں نمایاں مقام رکھنے والے نعیم طاہر جیسا جیون ساتھی اور پھر فرحان طاہر اور علی طاہر جیسی باصلاحیت اولاد—تو اِس طرح بات ایک موضوع سے دوسری طرف چلی جاتی ہے۔

’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’کچھ تو کہیئے‘ میں یاسمین نے بارہا خود کو خوش قسمت قرار دیااور سب سے زیادہ ریڈیو پر کام کے حوالے سے—تقسیم سے پہلے کے لاہور کے ریڈیو اسٹیشن سے اُنھوں نے بچوں کے پروگرام سے آغاز کیا۔

آپا شمیم (موہنی حمید) کا گھر پاس ہی تھا اور وہ یاسمین طاہر کو اپنے ساتھ لے جایا کرتیں۔
یہ ریڈیو کا سنہری دور تھا۔ امتیاز علی تاج سمیت کوئی بھی قابلِ ذکر ادیب اور شاعر ایسا نہیں تھا جِس کی وابستگی ریڈیو سے نہ ہو۔

بس، پھر یاسمین ریڈیو ہی کی ہوگئیں—بچوں کے پروگرام کے بعد سب سے زیادہ اُن کا دل
Western Musicکے پروگرام میں لگا۔ اور، پھر جب اُنھوں نے صبح کا پروگرام ’سات رنگ‘ کرنا شروع کیا تو وہ اُن کی پہچان بن گیا۔

یاسمین اور نعیم طاہر
یاسمین اور نعیم طاہر
یاسمین نےبات چیت کا ایک نیا انداز متعارف کروایا۔ اِس طرح، جیسے اُن کا سننے والا سامنے ہی بیٹھا ہو، اور اِس کے آغاز کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔

’سات رنگ‘ کا اسکرپٹ لکھا جانا تھا اور پھر یہ ایک خاتون اور ایک مرد کی آواز میں ہوتا تھا— ایک صبح جب ریڈیو پہونچی تو پتہ چلا کہ اوپر سے حکم صادر ہوا ہے کہ اب عورت اور مرد کی آواز میں ساتھ پروگرام نہیں ہوگا—بھلا اب کیا کریں؟ وہ جو سوال و جواب کا انداز تھا اُسے کیونکر جاری رکھا جائے—ایک آدھ ہفتہ تو گھبرائی گھبرائی رہی، لیکن پھر میں نے اپنے سننے والوں کو اپنا ساتھی بنا لیا۔ میں اُن سے اِس طرح بات کرتی جیسے وہ سامنے بیٹھے ہوں۔ ’واہ بھئی ، کیا خوبصورت گلابی جوڑا پہنا ہے‘۔ بس یہ اسٹائیل اتنا مقبول ہوا کہ یاسمین عشروں تک ہر صبح ریڈیو سے اپنے سننے والوں سے مخاطب ہوتی رہیں اور ہمارے پروگرام میں بھی اُن کے ایسے کئی سننے والوں نے اُنھیں فون کیا جو لاہور میں اُن کا پروگرام سنتے تھے۔

بقول یاسمین کے، ’کوئی ایک ایسا دن نہیں ہے جب میں نے اپنے کام کوبوجھ تصور کیا۔میرے لیے ریڈیو پر جانا ایک عجیب سی کیفیت تھی— ہر دِن ایک نیادِن لگتا تھا—میں نے کبھی بھی ریڈیو پر کام کو ملازمت نہیں سمجھا‘۔

بہرحال، عشروں تک ریڈیو کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھنے والی یاسمین طاہر کو ریڈیو کی موجودہ زبون حالی بہت دکھ دیتی ہے—اور اُنھیں حیرانی بھی ہوتی ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں بہت بڑی آبادی اب بھی خبروں اور تفریح کے لیے ریڈیو پر انحصار کرتی ہے وہاں وہ غیر اہم کیسے ہوگیا؟

یاسمین نے اپنی زندگی کا ساتھی بھی فن کی دنیا سے ہی چنا تھا۔ اور، اِس کے بعد، اُنھوں نے ریڈیو پر اپنا نام بھی تبدیل کیا جو اُنھوں نے بتایا کہ انتہائی دشوار مرحلہ تھا۔’یاسمین امتیاز علی سے یاسمین طاہر بننا—کافی دِن تک تو میں نے صرف یاسمین ہی نام رہنے دیا—سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ سننے والے بھی اِس نئے نام کے ساتھ کس طرح قبول کریں گے—مگر آہستہ آہستہ ، فرداً فرداً سب میرے نئے نام کے عادی ہوگئے‘۔

یاسمین خود کو انتہائی خوش قسمت تصور کرتی ہیں۔ محبت کرنے والے ذہین ماں باپ، مزاج سے ہم آہنگی رکھنے والے شوہر نعیم طاہر جِن کے ساتھ شادی کے بعد اِس جوڑے نے کیلی فورنیا میں مشہور زمانہ یونیورسٹی UNCLA میں راکِ فیلر اسکالرشپ پرتھیٹر کی تعلیم حاصل کی۔

اُن کے سب سے بڑے بیٹے فاران طاہر کی پیدائش بھی وہیں ہوئی۔ وہ اب San Diegoمیں رہتے ہیں اور ہالی ووڈ کے ایک کامیاب اداکار ہیں۔ اُنھوں نے Iron Manاور Star Trekجیسی فلموں میں نمایاں کردار ادا کیے ہیں۔

سب سے چھوٹے بیٹے علی طاہر ٹیلی ویژن سے منسلک ہیں۔ یاسمین نے بتایا کہ اُن کی ایک کمرشل فلم جلد ہی ریلیز ہونے والی ہے۔ ’جب بھی میں ماں بننے والی ہوتی تھی تو دعا کرتی تھی کہ بچی پیدا ہو تاکہ اسے خوب بنا سجا سکوں—مگر خدا نے مجھے اتنے اچھے پیار کرنے والے تین بیٹے دیے ہیں کہ میں ہر لمحے اس کا شکر ادا کرتی ہوں‘۔
XS
SM
MD
LG