واشنگٹن —
بدھ کے روز سے حقّانی نیٹ ورک کے خلاف امریکی پابندیاں نافذ العمل ہو گئی ہیں۔
اِس ماہ کی سات تاریخ کو اس گروہ کو امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے ایک غیر ملکی دہشت گردتنظیم قرار دے دیا تھا۔ باقاعدہ طور پر یہ اعلان بدھ کو امریکی فیڈرل رجسٹر میں شائع کر دیا گیا ہے۔
اس اعلان کے بعد امریکہ اور اس کے زیر انتظام علاقوں میں حقّانی نیٹ ورک کے تمام اثاثے منجمد ہوگئے ہیں، امریکی کمپنیوں کو حقّانی نیٹ ورک کے ساتھ کوئی کاروبار کرنے یا امریکیوں کو حقّانی نیٹ ورک کی مالی امداد فراہم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
امریکہ حقّانی نیٹ ورک کو افغانستان میں ہونے والے کئی ایک انتہائی مہلک حملوں کا ذمّہ دار قرار دیتا ہے۔ ان میں امریکی سفارت خانے، نیٹو کے ہیڈ کوارٹرز اور کابل کے ایک فائیو سٹار ہوٹل پر حملے شامل ہیں۔
ایسے میں جب پاکستانی وزیر خارجہ امریکہ کےدورے پر ہیں، امریکی حکّام اس خدشے کو رد کر رہے ہیں کہ حقّانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دینے کا پاک امریکہ تعلّقات پر کوئی اثر پڑے گا۔
امریکی اعلٰی اہلکاروں کے مطابق اس سے پہلے بھی کئی ایسے گروہ ہیں جن کی جڑیں پاکستان میں ہیں، مثلًا لشکر طیبہ اور جماعت الدعوہ، جنہیں امریکہ دہشت گرد قرار دے چکا ہے، لیکن اس سے باہمی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
البتہ، ماضی میں امریکہ اکثر یہ شکایت کرتا رہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں، خصوصًا شمالی وزیرستان میں حقّانی نیٹ ورک کی پناہ گاہیں موجود ہیں اور اس تنظیم کو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی حمایت حاصل ہے۔
سابق امریکی چئیرمین آف دی جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک ملن نے ریٹائرمنٹ سے قبل کانگریس کے سامنے ایک بیان میں حقّانی نیٹ ورک کو پاکستانی خفیہ ایجنسی کا ’’دستِ بازو” قرار دیا تھا۔
امریکہ وقتًا فوقًا پاکستان سے حقّانی نیٹ ورک پر دباؤ بڑھانے اور ان کےخلاف ایکشن لینے کا مطالبہ بھی کر چکا ہے۔ اسی لیے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان میں امریکہ کو حقّانی نیٹ کی طرف سے مشکلات میں اضافہ ہوا تو اس کا پاک امریکہ تعلقات پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔
اِس ماہ کی سات تاریخ کو اس گروہ کو امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے ایک غیر ملکی دہشت گردتنظیم قرار دے دیا تھا۔ باقاعدہ طور پر یہ اعلان بدھ کو امریکی فیڈرل رجسٹر میں شائع کر دیا گیا ہے۔
اس اعلان کے بعد امریکہ اور اس کے زیر انتظام علاقوں میں حقّانی نیٹ ورک کے تمام اثاثے منجمد ہوگئے ہیں، امریکی کمپنیوں کو حقّانی نیٹ ورک کے ساتھ کوئی کاروبار کرنے یا امریکیوں کو حقّانی نیٹ ورک کی مالی امداد فراہم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
امریکہ حقّانی نیٹ ورک کو افغانستان میں ہونے والے کئی ایک انتہائی مہلک حملوں کا ذمّہ دار قرار دیتا ہے۔ ان میں امریکی سفارت خانے، نیٹو کے ہیڈ کوارٹرز اور کابل کے ایک فائیو سٹار ہوٹل پر حملے شامل ہیں۔
ایسے میں جب پاکستانی وزیر خارجہ امریکہ کےدورے پر ہیں، امریکی حکّام اس خدشے کو رد کر رہے ہیں کہ حقّانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دینے کا پاک امریکہ تعلّقات پر کوئی اثر پڑے گا۔
امریکی اعلٰی اہلکاروں کے مطابق اس سے پہلے بھی کئی ایسے گروہ ہیں جن کی جڑیں پاکستان میں ہیں، مثلًا لشکر طیبہ اور جماعت الدعوہ، جنہیں امریکہ دہشت گرد قرار دے چکا ہے، لیکن اس سے باہمی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
البتہ، ماضی میں امریکہ اکثر یہ شکایت کرتا رہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں، خصوصًا شمالی وزیرستان میں حقّانی نیٹ ورک کی پناہ گاہیں موجود ہیں اور اس تنظیم کو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی حمایت حاصل ہے۔
سابق امریکی چئیرمین آف دی جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک ملن نے ریٹائرمنٹ سے قبل کانگریس کے سامنے ایک بیان میں حقّانی نیٹ ورک کو پاکستانی خفیہ ایجنسی کا ’’دستِ بازو” قرار دیا تھا۔
امریکہ وقتًا فوقًا پاکستان سے حقّانی نیٹ ورک پر دباؤ بڑھانے اور ان کےخلاف ایکشن لینے کا مطالبہ بھی کر چکا ہے۔ اسی لیے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان میں امریکہ کو حقّانی نیٹ کی طرف سے مشکلات میں اضافہ ہوا تو اس کا پاک امریکہ تعلقات پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔