بھارتی حکومت نے انشورنس اور پنشن کے شعبوں کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش بنانے کے نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ جو سیاسی مخالفین کی جانب سے اتحادی حکومت گرانے کی دھمکیوں کے باوجود اقتصادی اصلاحات جاری رکھنے کے اس کے عزم کی جانب اشارہ ہے۔
بھارتی کابینہ کی جانب سے منظور کیا جانے والا بل غیر ملکی سرمایہ کاروں پر پنشن سیکٹر کے دوازے کھول دے گا جو اب تک ان کے لیے شجر ممنوعہ تھا۔ کابینہ نے انشورنس سیکٹر میں غیر ملکی کمپنیوں کی ملکیت 49 فی صد تک بڑھانے کی بھی اجازت دی۔
سیاسی اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے یہ تجاویز تقریباً ایک عشرے سے التوا میں پڑی ہوئی تھیں۔ اگر اس مسودے کو پارلیمنٹ کی منظوری حاصل ہوجاتی ہے تو یہ سخت مالیاتی کنٹرول کے اس بھارتی سیکٹر کو غیر ملکیوں پر کھولنے کی جانب ایک اہم قدم ہوگا ، جس کا مطالبہ غیر ملکی سرمایہ کار ایک طویل عرصے سے کرتے چلے آرہے تھے۔
بھارت کے پلاننگ کمشن کے ڈپٹی چیئرمین مونتک سنگھ اہلوالیا نے اس تنقید کو مسترد کردیا ہے کہ اس اقدام سے پنشن پانے والوں کاسرمایہ خطرے میں پڑ جائے گا۔
ان کے خیال میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی حد میں اضافے سے انشورنس کے فنڈز غیر ملکیوں کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے۔ اصل میں اس اقدام سے آپ غیرملکیوں کو بھارتی کنٹرول کی ایسی کمپنی میں اپنا سرمایہ لگانے کی اجازت دے رہے ہیں جو ان کے لیے کشش رکھتی ہے۔
لیکن پارلیمنٹ سے اس تاریخی اہمیت کے حامل بل کی منظوری حاصل کرنا حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ حکمران اتحاد پہلے ہی پرچون کے سپر اسٹوروں کو بھارتی مارکیٹ میں داخلے کی اجازت دینے کے بعد تند وتیز تنقید کی زد میں ہے۔ حکومت کی ایک اہم اتحادی جماعت پہلے ہی اتحاد سے الگ ہوچکی ہے جس سے حکومت کی عددی اکثریت گر چکی ہے۔
حکومت کی تازہ ترین اقصادی تجاویز کو سیاسی سطح پر شدید دباؤ کا سامناکرنا پڑ ہے۔
پرکاش جاویدکر ہندوقوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک سینئیر لیڈر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے کسی اقدام کے حق میں نہیں ہیں جس سے وہ رقوم خطرے میں پڑ جائیں جن کی پنشروں کو ضمانت دی گئی تھی۔
لیکن بی جے پی نے یہ کہتے ہوئے بات چیت کے لیے کچھ گنجائش باقی رکھی ہے کہ انشورنش اور پنشن کے شعبوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
بائیں بازو کی جماعتوں نے بھی حکومتی منصوبوں کو مسترد کردیاہے۔
ڈی راجا کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ایک سینیئر راہنما ہیں۔ ان کا کہناہے کہ یہ چیزیں قوم کے مفاد میں نہیں ہیں۔ اس میں لوگوں کا نقصان ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔
حکومت کا کہناہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے حصول اور بھارتی معیشت پر ان کے اعتماد کی بحالی کے لیے سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ اقتصادی ترقی کی رفتار گذشتہ تین سال کی اپنی کم ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے اور بڑے پیمانے پر رشوت خوری اور پالیسی سازی کے عمل میں معذوری کی شکایات کے نتیجے میں سرمایہ کار بھارتی مارکیٹ میں آنے سے ہچکچا رہے ہیں۔
اقتصادی اصلاحات کی اس تازہ لہر کی ابتدا گذشتہ مہینے حکومت کے اس اعلان کے بعد ہوئی تھی کہ وہ لڑکھڑاتی معیشت کو سنبھالا دینا چاہتی ہے۔
بھارتی کابینہ کی جانب سے منظور کیا جانے والا بل غیر ملکی سرمایہ کاروں پر پنشن سیکٹر کے دوازے کھول دے گا جو اب تک ان کے لیے شجر ممنوعہ تھا۔ کابینہ نے انشورنس سیکٹر میں غیر ملکی کمپنیوں کی ملکیت 49 فی صد تک بڑھانے کی بھی اجازت دی۔
سیاسی اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے یہ تجاویز تقریباً ایک عشرے سے التوا میں پڑی ہوئی تھیں۔ اگر اس مسودے کو پارلیمنٹ کی منظوری حاصل ہوجاتی ہے تو یہ سخت مالیاتی کنٹرول کے اس بھارتی سیکٹر کو غیر ملکیوں پر کھولنے کی جانب ایک اہم قدم ہوگا ، جس کا مطالبہ غیر ملکی سرمایہ کار ایک طویل عرصے سے کرتے چلے آرہے تھے۔
بھارت کے پلاننگ کمشن کے ڈپٹی چیئرمین مونتک سنگھ اہلوالیا نے اس تنقید کو مسترد کردیا ہے کہ اس اقدام سے پنشن پانے والوں کاسرمایہ خطرے میں پڑ جائے گا۔
ان کے خیال میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی حد میں اضافے سے انشورنس کے فنڈز غیر ملکیوں کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے۔ اصل میں اس اقدام سے آپ غیرملکیوں کو بھارتی کنٹرول کی ایسی کمپنی میں اپنا سرمایہ لگانے کی اجازت دے رہے ہیں جو ان کے لیے کشش رکھتی ہے۔
لیکن پارلیمنٹ سے اس تاریخی اہمیت کے حامل بل کی منظوری حاصل کرنا حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ حکمران اتحاد پہلے ہی پرچون کے سپر اسٹوروں کو بھارتی مارکیٹ میں داخلے کی اجازت دینے کے بعد تند وتیز تنقید کی زد میں ہے۔ حکومت کی ایک اہم اتحادی جماعت پہلے ہی اتحاد سے الگ ہوچکی ہے جس سے حکومت کی عددی اکثریت گر چکی ہے۔
حکومت کی تازہ ترین اقصادی تجاویز کو سیاسی سطح پر شدید دباؤ کا سامناکرنا پڑ ہے۔
پرکاش جاویدکر ہندوقوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک سینئیر لیڈر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے کسی اقدام کے حق میں نہیں ہیں جس سے وہ رقوم خطرے میں پڑ جائیں جن کی پنشروں کو ضمانت دی گئی تھی۔
لیکن بی جے پی نے یہ کہتے ہوئے بات چیت کے لیے کچھ گنجائش باقی رکھی ہے کہ انشورنش اور پنشن کے شعبوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
بائیں بازو کی جماعتوں نے بھی حکومتی منصوبوں کو مسترد کردیاہے۔
ڈی راجا کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ایک سینیئر راہنما ہیں۔ ان کا کہناہے کہ یہ چیزیں قوم کے مفاد میں نہیں ہیں۔ اس میں لوگوں کا نقصان ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔
حکومت کا کہناہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے حصول اور بھارتی معیشت پر ان کے اعتماد کی بحالی کے لیے سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ اقتصادی ترقی کی رفتار گذشتہ تین سال کی اپنی کم ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے اور بڑے پیمانے پر رشوت خوری اور پالیسی سازی کے عمل میں معذوری کی شکایات کے نتیجے میں سرمایہ کار بھارتی مارکیٹ میں آنے سے ہچکچا رہے ہیں۔
اقتصادی اصلاحات کی اس تازہ لہر کی ابتدا گذشتہ مہینے حکومت کے اس اعلان کے بعد ہوئی تھی کہ وہ لڑکھڑاتی معیشت کو سنبھالا دینا چاہتی ہے۔