مشرق میں خواتین کو صنف نازک کہاجاتا ہے جب کہ مغرب میں سمندری طوفانوں کو خواتین کے ناموں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ البتہ اب کچھ برسوں سے ان کے مردانہ نام بھی رکھے جارہے ہیں ،لیکن اتفاق یہ ہے مردانہ ناموں کے طوفان عموماً کمزور اور ناتواں ثابت ہوئے ہیں اور ان کا ذکر کم کم ہی سننے میں آتا ہے، جب کہ نسوانی ناموں کے کئی طوفان اپنی تباہ کاریوں کے سبب بڑا خوف و ہراس پھیلاچکے ہیں۔
انیسویں صدی کے شروع تک سمندروں میں جنم لینے والے طوفانوں کا صرف ایک ہی نام ہوتاتھا۔۔۔ یعنی طوفان۔۔۔۔ لیکن بعد میں آسٹریلیا کے ایک سائنس دان کلیمنٹ لنڈلی ریگ نے پہچان کے لیے ان کے نام رکھنے شروع کیے۔ یہ نام یونانی الفاظ، الفا ، بیٹا اور گاما جیسے ہوتے تھے۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک نہ چل سکا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران 1941 میں جارج سٹورڈ کے ناول ’سٹارم‘ نے بڑی شہرت پائی۔ کہاجاتا ہے کہ یہ ناول سمندری طوفانوں کے نسوانی نام رکھنے کی تحریک بنا۔ کسی طوفان کو ملنے والا پہلا نسوانی نام ’ایلس ‘ تھا جو 1953 میں رکھا گیا۔ اس کے بعد 1972 تک سمندری طوفانوں کے زیادہ تر نسوانی نام ہی رکھے جاتے رہے۔
یہ بھی کہاجاتا ہے کہ طوفانوں کے نسوانی نام ماہی گیروں سے متاثر ہوکر رکھے گئے کیونکہ ان کی زیادہ تر کشتیوں کے نام نسوانی ہوتےہیں۔
لیکن 1973 میں اس فہرست میں مردانہ نام بھی شامل کردیے گئے۔ اور پھر آنے والے برسوں میں موسمیات کے عالمی ماہرین نے نام رکھنے کا ایک طریقہ کار وضع کیا، جس پر باقاعدگی سے عمل کیا جارہاہے۔
ناموں کی موجودہ فہرست میں عورتوں اور مردوں کے ناموں کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ مثال کے طور پر 2012 کی فہرست میں پہلا نام البرٹو ہے جو مردانہ نام ہے اس کے بعد زنانہ نام بیریل ، پھر مردانہ نام کرس اور اس کے بعد زنانہ نام ڈیبی ہے اور حروف تہجی کے لحاظ سے یہ ترتیب ڈبلیو تک چلتی ہے۔جیسا کہ2012 کی فہرست میں آخری نام ولیم ہے۔
چونکہ سال بھر کے دوران کئی طوفان متوقع ہوتے ہیں، ان کی شناخت کے لیے ماہرین نے ناموں کی ایک فہرست بنا رکھی ہے جسے حروف تہجی کی ترتیب سے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے سینڈی کے بعد اگر سال کوئی اور سمندری طوفان آیا تو اس کانام ٹونی ہوگا اور اس کے بعد کا طوفان ویلیری کہلائے گا۔
انگریزی حروف تہجی کے لحاظ سے بنائی جانے والی اس فہرست میں کیو، یو، ایکس ، وائی اور زیڈ سے شروع ہونے والا کوئی نام موجود نہیں ہے۔ چنانچہ یہ فہرست 21 ناموں پر مشتمل ہے۔
ایک سال کے دوران عموماً دس سے 12 تک طوفان آتے ہیں، لیکن اگر ان کی تعداد 21 سے بڑھ جائے تو پھر اس کے نام کے لیے یونانی زبان کے الفاظ الفا، بیٹا اور گاما وغیرہ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
سائنس دانوں نے بڑے سمندروں میں اٹھنے والے طوفانوں کے ناموں کی چھ سال کی فہرستیں مرتب کررکھی ہیں جن میں سے ہر ایک میں 21 نام شامل ہیں۔ ساتویں سال پہلے سال کی فہرست دوہرائی جاتی ہے۔ گویا 2012 کی فہرست کے نام 2018 میں دوبارہ استعمال میں آئیں گے۔
موسم اور کئی دوسرے عوامل سے سمندروں اکثر میں ہیجان پیدا ہوتا ہے، مگر سائنس دان اسے طوفان کا نام اس وقت دیتے ہیں جب اس کی ہواؤں کی رفتار 39 میل فی گھنٹہ ہو جائے۔جس کے بعد اسے ترتیب کے مطابق اس سال کی فہرست کا نام دے دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سال کے پہلے طوفان کا نام اے سے ہوگا، جب کہ دوسرا طوفان کے نام بی سے اور تیسرے کا سی سے شروع ہوگا۔
جب سمندری طوفان میں ہواؤں کی رفتار 74 میل فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ جاتی ہے تو اس کا درجہ موسمی طوفان یعنی ٹراپیکل سٹارم سے بڑھا کر ہری کین کردیا جاتا ہے۔ ہری کین کے ناموں کی کوئی الگ فہرست نہیں ہے ۔ کیونکہ ٹراپیکل سٹارم ہی ہری کین بنتا ہے، اس لیے موسمی طوفان کا نام ہری کین سے جڑجاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہرکین سینڈی، جو شروع میں ٹراپیکل سٹارم سینڈی تھا۔
بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے سمندری طوفان کا نام فہرست سے خارج کرکے اسی حرف سے شروع ہونے والا دوسرا نام رکھ لیا جاتا ہے۔ اس عمل کو نام کا ریٹائر کرنا کہا جاتاہے۔ جیسے کیٹرینا اور الین کے نام ریٹائر کیے جاچکے ہیں۔ نام ریٹائر کرنے کا کوئی مخصوص پیمانہ مقرر نہیں ہے۔ عموماً 50 سے زیادہ انسانی جانیں نگلنے والے طوفان کا نام ریٹائر کیا جاتا ہے، لیکن اس کا فیصلہ ہرسال کے شروع میں موسمیات کے سائنس دانوں کی عالمی کانفرنس میں کئی پہلوؤں پر سوچ بچار کے بعد ہوتا ہے۔
ہری کین سینڈی نے بحراوقیانوس میں اپنی پیدائش کے بعد پہلے جزائر غرب الہند میں قیامت ڈھائی اور 70 کے لگ بھگ انسانی جانوں کونگلا اور پھر امریکہ کے مشرقی ساحلوں پر یلغار کی جہاں نقصانات کا تخمینہ اربوں ڈالروں میں لگایا جارہاہے اورہلاکتوں کی تعداد 50 سے بڑھ چکی ہے۔
کیا سینڈی کو 2018 میں اپنا جلوہ دکھانے کا موقع ملے گا؟ یا پھر اس پر قہروغضب ڈھانے اور تباہیاں مچانے کی فرد جرم عائد کرکے سمندری طوفانوں کی فہرست سے خارج کردیا جائے گا؟ اس کا فیصلہ 2013 کے شروع میں موسمیات کے ماہرین کی سالانہ عالمی کانفرنس میں ہوگا۔
انیسویں صدی کے شروع تک سمندروں میں جنم لینے والے طوفانوں کا صرف ایک ہی نام ہوتاتھا۔۔۔ یعنی طوفان۔۔۔۔ لیکن بعد میں آسٹریلیا کے ایک سائنس دان کلیمنٹ لنڈلی ریگ نے پہچان کے لیے ان کے نام رکھنے شروع کیے۔ یہ نام یونانی الفاظ، الفا ، بیٹا اور گاما جیسے ہوتے تھے۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک نہ چل سکا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران 1941 میں جارج سٹورڈ کے ناول ’سٹارم‘ نے بڑی شہرت پائی۔ کہاجاتا ہے کہ یہ ناول سمندری طوفانوں کے نسوانی نام رکھنے کی تحریک بنا۔ کسی طوفان کو ملنے والا پہلا نسوانی نام ’ایلس ‘ تھا جو 1953 میں رکھا گیا۔ اس کے بعد 1972 تک سمندری طوفانوں کے زیادہ تر نسوانی نام ہی رکھے جاتے رہے۔
یہ بھی کہاجاتا ہے کہ طوفانوں کے نسوانی نام ماہی گیروں سے متاثر ہوکر رکھے گئے کیونکہ ان کی زیادہ تر کشتیوں کے نام نسوانی ہوتےہیں۔
لیکن 1973 میں اس فہرست میں مردانہ نام بھی شامل کردیے گئے۔ اور پھر آنے والے برسوں میں موسمیات کے عالمی ماہرین نے نام رکھنے کا ایک طریقہ کار وضع کیا، جس پر باقاعدگی سے عمل کیا جارہاہے۔
ناموں کی موجودہ فہرست میں عورتوں اور مردوں کے ناموں کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ مثال کے طور پر 2012 کی فہرست میں پہلا نام البرٹو ہے جو مردانہ نام ہے اس کے بعد زنانہ نام بیریل ، پھر مردانہ نام کرس اور اس کے بعد زنانہ نام ڈیبی ہے اور حروف تہجی کے لحاظ سے یہ ترتیب ڈبلیو تک چلتی ہے۔جیسا کہ2012 کی فہرست میں آخری نام ولیم ہے۔
چونکہ سال بھر کے دوران کئی طوفان متوقع ہوتے ہیں، ان کی شناخت کے لیے ماہرین نے ناموں کی ایک فہرست بنا رکھی ہے جسے حروف تہجی کی ترتیب سے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے سینڈی کے بعد اگر سال کوئی اور سمندری طوفان آیا تو اس کانام ٹونی ہوگا اور اس کے بعد کا طوفان ویلیری کہلائے گا۔
انگریزی حروف تہجی کے لحاظ سے بنائی جانے والی اس فہرست میں کیو، یو، ایکس ، وائی اور زیڈ سے شروع ہونے والا کوئی نام موجود نہیں ہے۔ چنانچہ یہ فہرست 21 ناموں پر مشتمل ہے۔
ایک سال کے دوران عموماً دس سے 12 تک طوفان آتے ہیں، لیکن اگر ان کی تعداد 21 سے بڑھ جائے تو پھر اس کے نام کے لیے یونانی زبان کے الفاظ الفا، بیٹا اور گاما وغیرہ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
سائنس دانوں نے بڑے سمندروں میں اٹھنے والے طوفانوں کے ناموں کی چھ سال کی فہرستیں مرتب کررکھی ہیں جن میں سے ہر ایک میں 21 نام شامل ہیں۔ ساتویں سال پہلے سال کی فہرست دوہرائی جاتی ہے۔ گویا 2012 کی فہرست کے نام 2018 میں دوبارہ استعمال میں آئیں گے۔
موسم اور کئی دوسرے عوامل سے سمندروں اکثر میں ہیجان پیدا ہوتا ہے، مگر سائنس دان اسے طوفان کا نام اس وقت دیتے ہیں جب اس کی ہواؤں کی رفتار 39 میل فی گھنٹہ ہو جائے۔جس کے بعد اسے ترتیب کے مطابق اس سال کی فہرست کا نام دے دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سال کے پہلے طوفان کا نام اے سے ہوگا، جب کہ دوسرا طوفان کے نام بی سے اور تیسرے کا سی سے شروع ہوگا۔
جب سمندری طوفان میں ہواؤں کی رفتار 74 میل فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ جاتی ہے تو اس کا درجہ موسمی طوفان یعنی ٹراپیکل سٹارم سے بڑھا کر ہری کین کردیا جاتا ہے۔ ہری کین کے ناموں کی کوئی الگ فہرست نہیں ہے ۔ کیونکہ ٹراپیکل سٹارم ہی ہری کین بنتا ہے، اس لیے موسمی طوفان کا نام ہری کین سے جڑجاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہرکین سینڈی، جو شروع میں ٹراپیکل سٹارم سینڈی تھا۔
بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے سمندری طوفان کا نام فہرست سے خارج کرکے اسی حرف سے شروع ہونے والا دوسرا نام رکھ لیا جاتا ہے۔ اس عمل کو نام کا ریٹائر کرنا کہا جاتاہے۔ جیسے کیٹرینا اور الین کے نام ریٹائر کیے جاچکے ہیں۔ نام ریٹائر کرنے کا کوئی مخصوص پیمانہ مقرر نہیں ہے۔ عموماً 50 سے زیادہ انسانی جانیں نگلنے والے طوفان کا نام ریٹائر کیا جاتا ہے، لیکن اس کا فیصلہ ہرسال کے شروع میں موسمیات کے سائنس دانوں کی عالمی کانفرنس میں کئی پہلوؤں پر سوچ بچار کے بعد ہوتا ہے۔
ہری کین سینڈی نے بحراوقیانوس میں اپنی پیدائش کے بعد پہلے جزائر غرب الہند میں قیامت ڈھائی اور 70 کے لگ بھگ انسانی جانوں کونگلا اور پھر امریکہ کے مشرقی ساحلوں پر یلغار کی جہاں نقصانات کا تخمینہ اربوں ڈالروں میں لگایا جارہاہے اورہلاکتوں کی تعداد 50 سے بڑھ چکی ہے۔
کیا سینڈی کو 2018 میں اپنا جلوہ دکھانے کا موقع ملے گا؟ یا پھر اس پر قہروغضب ڈھانے اور تباہیاں مچانے کی فرد جرم عائد کرکے سمندری طوفانوں کی فہرست سے خارج کردیا جائے گا؟ اس کا فیصلہ 2013 کے شروع میں موسمیات کے ماہرین کی سالانہ عالمی کانفرنس میں ہوگا۔