واشنگٹن پوسٹ
شمالی کوریا کی طرف سے بدھ کو بین الاقوامی مخالفت کے باوجود ایک راکٹ خلا میں داغے جانے پر واشنگٹن پوسٹ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ اس ملک پر نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ اس کے پیچھے ملک کے داخلی عواقب ہیں اور 29 سالہ سٹالینی ڈکٹیٹر کم جان ان نے یہ قدم ملک پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے اٹھایا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ کہ ایسا لگ رہاہے کہ اقوام متحدہ کی لازمی قراردادوں کی اس طرح کی کھلی خلاف ورزیوں کا شمالی کوریا کو ہی خمیازہ نہیں بھگتنا پڑے گا، بلکہ اس کے برعکس مسٹر کم کو غالباً جنوبی کوریا کی طرف سے وہ توجہ نصیب ہوجائے گی جس کی انہیں وہاں کے عام انتخابات کے بعد امید ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ جنوبی کوریا کیا کرتا ہے، صدر اوباما کو چاہیے کہ وہ شمالی کوریا کے خلاف تعزیرات کو سخت کرنے کی کوشش کریں، اور اس سلسلے میں چین پر دباؤ ڈالیں جو دنیا کا واحد ملک ہے، جس کا شمالی کوریا میں کوئی اثرونفوذ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں کلنٹن اور بش دور کے ابتدائی نوعیت کے میزائل دفاعی نظام کو فروغ دینے کے لیے فنڈز فراہم کرنے چاہیں۔ کیونکہ اخبار کے خیال میں ایک میزائل جو خلا میں ایک سیارچہ داغ سکتا ہے ، اس میں ایک جوہری وار ہیڈ لاد کر امریکہ بھیجا جاسکتا ہے۔
انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون
تباہ کن طوفان سینڈی نے نیویارک اور نیوجرسی کی ریاستوں میں جو بھاری نقصان پہنچایا، اس میں وسیع پیمانے پر پاور لائنوں اور بجلی کے کھمبے گرجانے سے بے شمار گھر توانائی سے محروم ہوگئے۔ اس تباہی کے تناظر میں انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون میں شمسی ذرائع پر انحصار بڑھانے کی حمایت میں ڈیوڈ کرین اور رابرٹ کینیڈی ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ توانائی حاصل کرنے کا آلودگی سے پاک ایک ذریعہ سورج ہے۔ اور اس ٹیکنالوجی کو اگر فروغ دیا جائے تو توانائی کے روایتی طریقوں پر انحصار کو کم کیا جاسکتا ہے۔
بجلی پیدا کرنے والے پینل مکانوں ، گوداموں اور پارکنگ گیراجوں کی چھتوں پر نصب کرکے انہیں اس طرح تاروں سے جوڑا جاسکتا ہے کہ پاور گرڈ فیل ہوجانے کی صورت میں اس سے توانائی حاصل ہوتی رہے۔
ان کا کہناہے کہ پچھلے پانچ سال کے دوران سولر پینلز کی قیمتوں میں 80 فی صد تک کمی آئی ہے اور ان سے حاصل کی جانے والی بجلی کی لاگت امریکہ کی 20 ریاستوں میں روایتی گرڈ اسٹیشنوں سے فراہم کردہ بجلی کی قیمت کے برابر یا اس سے کم ہے۔ لہذا یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ توانائی کے اس ذریعے پر کیوں زور نہیں دیا جارہا جو صاف شفاف ہے ، مہنگی نہیں ہے ، محفوظ ہے او راتنی وافر مقدار میں ہے کہ کبھی ختم نہ ہو۔
مضمون نگار کا کہناہے کہ ایسے سولر پینلز نصب کرنے کے ضابطوں کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جرمنی میں اس کا لائسنس محض آٹھ روز میں مل جاتا ہے لیکن امریکہ میں 120 سے 180 دن تک لگ جاتے ہیں۔ جرمنی میں دس لاکھ سے زیادہ گھروں کی چھتوں میں سولر پینلز لگے ہوئے ہیں حالانکہ جرمنی میں سورج کی شعاعیں تقریباً اسی تناسب سے دستیاب ہیں جتنی کہ الاسکا میں۔
نیویارک ٹائمز
نیویارک ٹائمز میں پاکستان میں ٹیکس ادا نہ کرنے کی روایت پر ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق ملک کی پارلیمنٹ کے ارکان میں سے صرف ایک تہائی ٹیکس اداکرتے ہیں۔ ٹیکس ادا نہ کرنے والے لیڈروں میں صدر آصف علی زرداری کا نام بھی آتا ہے۔
سول سوسائٹی کے دو اداروں کی طرف سے شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق بہت سے سیاست دانوں کا شاہانہ رہن سہن ، ان کی سرکاری تنخواہوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
پاکستان میں ٹیکس کی وصولی کی شرح نہایت کم ہے۔ 18 کروڑ کی آبادی میں سے صرف دو فی صد ٹیکس دہندگان کے طورپر رجسٹر ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک چوتھائی سے بھی کم لوگ فی الواقع ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
ٹیکسوں کی چوری سب سے زیادہ دولت مند لوگوں میں ہے۔ اس طرح پاکستان میں مجموعی قومی پیداوار کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح پورے جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ غریب لوگوں پر حد سے زیادہ ٹیکسوں کا بوجھ ہے جو وہ بجلی، خوراک اور دوسری روزمرہ اشیاء پر بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔
شمالی کوریا کی طرف سے بدھ کو بین الاقوامی مخالفت کے باوجود ایک راکٹ خلا میں داغے جانے پر واشنگٹن پوسٹ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ اس ملک پر نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ اس کے پیچھے ملک کے داخلی عواقب ہیں اور 29 سالہ سٹالینی ڈکٹیٹر کم جان ان نے یہ قدم ملک پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے اٹھایا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ کہ ایسا لگ رہاہے کہ اقوام متحدہ کی لازمی قراردادوں کی اس طرح کی کھلی خلاف ورزیوں کا شمالی کوریا کو ہی خمیازہ نہیں بھگتنا پڑے گا، بلکہ اس کے برعکس مسٹر کم کو غالباً جنوبی کوریا کی طرف سے وہ توجہ نصیب ہوجائے گی جس کی انہیں وہاں کے عام انتخابات کے بعد امید ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ جنوبی کوریا کیا کرتا ہے، صدر اوباما کو چاہیے کہ وہ شمالی کوریا کے خلاف تعزیرات کو سخت کرنے کی کوشش کریں، اور اس سلسلے میں چین پر دباؤ ڈالیں جو دنیا کا واحد ملک ہے، جس کا شمالی کوریا میں کوئی اثرونفوذ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں کلنٹن اور بش دور کے ابتدائی نوعیت کے میزائل دفاعی نظام کو فروغ دینے کے لیے فنڈز فراہم کرنے چاہیں۔ کیونکہ اخبار کے خیال میں ایک میزائل جو خلا میں ایک سیارچہ داغ سکتا ہے ، اس میں ایک جوہری وار ہیڈ لاد کر امریکہ بھیجا جاسکتا ہے۔
انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون
تباہ کن طوفان سینڈی نے نیویارک اور نیوجرسی کی ریاستوں میں جو بھاری نقصان پہنچایا، اس میں وسیع پیمانے پر پاور لائنوں اور بجلی کے کھمبے گرجانے سے بے شمار گھر توانائی سے محروم ہوگئے۔ اس تباہی کے تناظر میں انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون میں شمسی ذرائع پر انحصار بڑھانے کی حمایت میں ڈیوڈ کرین اور رابرٹ کینیڈی ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ توانائی حاصل کرنے کا آلودگی سے پاک ایک ذریعہ سورج ہے۔ اور اس ٹیکنالوجی کو اگر فروغ دیا جائے تو توانائی کے روایتی طریقوں پر انحصار کو کم کیا جاسکتا ہے۔
بجلی پیدا کرنے والے پینل مکانوں ، گوداموں اور پارکنگ گیراجوں کی چھتوں پر نصب کرکے انہیں اس طرح تاروں سے جوڑا جاسکتا ہے کہ پاور گرڈ فیل ہوجانے کی صورت میں اس سے توانائی حاصل ہوتی رہے۔
ان کا کہناہے کہ پچھلے پانچ سال کے دوران سولر پینلز کی قیمتوں میں 80 فی صد تک کمی آئی ہے اور ان سے حاصل کی جانے والی بجلی کی لاگت امریکہ کی 20 ریاستوں میں روایتی گرڈ اسٹیشنوں سے فراہم کردہ بجلی کی قیمت کے برابر یا اس سے کم ہے۔ لہذا یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ توانائی کے اس ذریعے پر کیوں زور نہیں دیا جارہا جو صاف شفاف ہے ، مہنگی نہیں ہے ، محفوظ ہے او راتنی وافر مقدار میں ہے کہ کبھی ختم نہ ہو۔
مضمون نگار کا کہناہے کہ ایسے سولر پینلز نصب کرنے کے ضابطوں کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جرمنی میں اس کا لائسنس محض آٹھ روز میں مل جاتا ہے لیکن امریکہ میں 120 سے 180 دن تک لگ جاتے ہیں۔ جرمنی میں دس لاکھ سے زیادہ گھروں کی چھتوں میں سولر پینلز لگے ہوئے ہیں حالانکہ جرمنی میں سورج کی شعاعیں تقریباً اسی تناسب سے دستیاب ہیں جتنی کہ الاسکا میں۔
نیویارک ٹائمز
نیویارک ٹائمز میں پاکستان میں ٹیکس ادا نہ کرنے کی روایت پر ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق ملک کی پارلیمنٹ کے ارکان میں سے صرف ایک تہائی ٹیکس اداکرتے ہیں۔ ٹیکس ادا نہ کرنے والے لیڈروں میں صدر آصف علی زرداری کا نام بھی آتا ہے۔
سول سوسائٹی کے دو اداروں کی طرف سے شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق بہت سے سیاست دانوں کا شاہانہ رہن سہن ، ان کی سرکاری تنخواہوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
پاکستان میں ٹیکس کی وصولی کی شرح نہایت کم ہے۔ 18 کروڑ کی آبادی میں سے صرف دو فی صد ٹیکس دہندگان کے طورپر رجسٹر ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک چوتھائی سے بھی کم لوگ فی الواقع ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
ٹیکسوں کی چوری سب سے زیادہ دولت مند لوگوں میں ہے۔ اس طرح پاکستان میں مجموعی قومی پیداوار کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح پورے جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ غریب لوگوں پر حد سے زیادہ ٹیکسوں کا بوجھ ہے جو وہ بجلی، خوراک اور دوسری روزمرہ اشیاء پر بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔