یوکرین کے عبوری صدر الیگزینڈر ٹرچینوف نے باغیوں کی زیر نگرانی ہونے والے ریفرنڈم کو ’’پروپیگنڈہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
یوکرین کے مشرقی علاقوں ڈونیٹسک اور لوہانسک میں اتوار کو روس کے حامیوں نے متنازع ریفرنڈم کرایا تھا۔
ٹرچینوف نے پیر کو پارلیمنٹ کو بتایا کہ یہ ریفرنڈم ’’قتل، اغوا، تشدد اور دیگر سنگین جرائم کو چھپانے کے لیے ایک پروپیگنڈے سے زیادہ کچھ نہیں۔‘‘
تاہم اُنھوں نے کہا کہ مشرقی یوکرین میں اُن افراد کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں ’’جن کے ہاتھ خون آلود نہیں ہیں اور وہ اُن کے مقاصد کا قانونی طریقے سے دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
اُدھر ماسکو نے کہا ہے کہ وہ مشرقی یوکرین کے دو علاقوں میں خود مختاری کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کا احترام کرتا ہے۔ روس نے کہا ہے کہ علیحدگی پسند رہنماؤں اور کئیف کے درمیان مذاکرات کے ذریعے ان نتائج پر عمل درآمد کیا جائے۔
روس کا کہنا تھا کہ انتخابی نتائج پر عمل درآمد ’’مہذب انداز میں بغیر تشدد کے ‘‘ ہونا چاہیئے۔
یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا پیر کو ایک اجلاس بھی ہو رہا ہے جس میں کرائمیا کو روس میں شامل کرنے پر ماسکو کے خلاف مزید تعزیرات پر غور کیا جائے گا۔
اس سے قبل یوکرین کے مشرقی علاقے ڈونیٹسک میں اتوار کو ہونے والی رائے شماری کے منتظمین نے دعویٰ کیا ہے کہ رائے شماری میں حصہ لینے والوں میں سے 89 فیصد نے یوکرین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
نتائچ کا اعلان ووٹنگ کے عمل کے ختم ہونے کے تین گھنٹوں کے بعد کیا گیا جب کہ اس سے پہلے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا گیا تھا کہ نتائج کے اعلان میں وقت لگ سکتا ہے۔
علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ راۓ شماری میں 75 فیصد لوگوں نے حصہ لیا اور ان میں سے 10 فیصد نے خود مختاری کو مسترد کر دیا۔
جلدی میں اعلان کردہ نتائچ کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جا سکتی کیونکہ بین الااقومی مبصر ڈونیٹسک میں موجود نہیں تھے۔
وائس آف امریکہ کے ایک نامہ نگار نے رائے شماری کے اس عمل کے بارے میں کہا کہ یہ منظم نہیں تھا اور ووٹروں کے ناموں کی تصدیق کے لیے فہرستیں بھی نہیں تھیں جب کہ اس طرح کی اطلاعات بھی ملیں کہ ووٹ کئی دفعہ ڈالے گئے۔
علیحدگی پسندوں کے الیکشن کمیشن کے خود ساختہ سربراہ رومن لیگن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ ممکن نہیں کہ لوگوں نے کئی بار اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہو کیونکہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے آدھ گھنٹہ قطار میں کھڑا ہونا پڑا اس لیے کسی اور احتیاط کی ضرورت نہیں تھی۔
جن لوگوں نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا ان میں چند ایک کا کہنا تھا کہ انہیں یوکرین کی مرکزی حکومت پر اعتماد نہیں ہے اور ان کے خیال میں ایک متحدہ یوکرین ممکن نہیں ہے۔ وہ لوگ جو علیحدگی کی مخالفت کر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ یہ رائے شماری غیر قانونی ہے اس لیے انہوں نے اس میں حصہ نہیں لیا۔
مشرقی یوکرین کے دوسرے علاقے لوہانسک سے ابھی نتائج کی کوئی اطلاع نہیں ملی جہاں اتوار کے روز ایسی ہی رائے شماری کرائی گئی۔
یوکرین کے مرکزی حکومت نے ووٹنگ کے اس عمل کو "مجرمانہ ڈھونگ"سے تعبیر کیا اور امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے یہ کہہ کر اس کی مذمت کی کہ یہ غیر قانونی ہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس نام ’’نہاد آزادی‘‘ کا کیا مطلب ہو گا آیا کہ اس سے مراد یوکرین کے اندر زیادہ خومختاری، ایک آزاد ریاست کا قیام یا روس میں شامل ہونے کی کوشش ہو گی۔
روسی صدر ولادیمر پوٹن نے علیحدگی پسندوں پر زور دیا تھا کہ وہ اتوار کو ہونے والی ووٹنگ کو ملتوی کر دیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اسے مایوسی ہوئی ہے کہ کریملن نے علیحدگی پسندوں پر ووٹنگ کا عمل ملتوی کرنے کے لیے اپنا زیادہ اثر و رسوخ استعمال نہیں کیا۔
یوکرین کے مشرقی علاقوں ڈونیٹسک اور لوہانسک میں اتوار کو روس کے حامیوں نے متنازع ریفرنڈم کرایا تھا۔
ٹرچینوف نے پیر کو پارلیمنٹ کو بتایا کہ یہ ریفرنڈم ’’قتل، اغوا، تشدد اور دیگر سنگین جرائم کو چھپانے کے لیے ایک پروپیگنڈے سے زیادہ کچھ نہیں۔‘‘
تاہم اُنھوں نے کہا کہ مشرقی یوکرین میں اُن افراد کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں ’’جن کے ہاتھ خون آلود نہیں ہیں اور وہ اُن کے مقاصد کا قانونی طریقے سے دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
اُدھر ماسکو نے کہا ہے کہ وہ مشرقی یوکرین کے دو علاقوں میں خود مختاری کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کا احترام کرتا ہے۔ روس نے کہا ہے کہ علیحدگی پسند رہنماؤں اور کئیف کے درمیان مذاکرات کے ذریعے ان نتائج پر عمل درآمد کیا جائے۔
روس کا کہنا تھا کہ انتخابی نتائج پر عمل درآمد ’’مہذب انداز میں بغیر تشدد کے ‘‘ ہونا چاہیئے۔
یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا پیر کو ایک اجلاس بھی ہو رہا ہے جس میں کرائمیا کو روس میں شامل کرنے پر ماسکو کے خلاف مزید تعزیرات پر غور کیا جائے گا۔
اس سے قبل یوکرین کے مشرقی علاقے ڈونیٹسک میں اتوار کو ہونے والی رائے شماری کے منتظمین نے دعویٰ کیا ہے کہ رائے شماری میں حصہ لینے والوں میں سے 89 فیصد نے یوکرین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
نتائچ کا اعلان ووٹنگ کے عمل کے ختم ہونے کے تین گھنٹوں کے بعد کیا گیا جب کہ اس سے پہلے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا گیا تھا کہ نتائج کے اعلان میں وقت لگ سکتا ہے۔
علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ راۓ شماری میں 75 فیصد لوگوں نے حصہ لیا اور ان میں سے 10 فیصد نے خود مختاری کو مسترد کر دیا۔
جلدی میں اعلان کردہ نتائچ کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جا سکتی کیونکہ بین الااقومی مبصر ڈونیٹسک میں موجود نہیں تھے۔
وائس آف امریکہ کے ایک نامہ نگار نے رائے شماری کے اس عمل کے بارے میں کہا کہ یہ منظم نہیں تھا اور ووٹروں کے ناموں کی تصدیق کے لیے فہرستیں بھی نہیں تھیں جب کہ اس طرح کی اطلاعات بھی ملیں کہ ووٹ کئی دفعہ ڈالے گئے۔
علیحدگی پسندوں کے الیکشن کمیشن کے خود ساختہ سربراہ رومن لیگن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ ممکن نہیں کہ لوگوں نے کئی بار اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہو کیونکہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے آدھ گھنٹہ قطار میں کھڑا ہونا پڑا اس لیے کسی اور احتیاط کی ضرورت نہیں تھی۔
جن لوگوں نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا ان میں چند ایک کا کہنا تھا کہ انہیں یوکرین کی مرکزی حکومت پر اعتماد نہیں ہے اور ان کے خیال میں ایک متحدہ یوکرین ممکن نہیں ہے۔ وہ لوگ جو علیحدگی کی مخالفت کر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ یہ رائے شماری غیر قانونی ہے اس لیے انہوں نے اس میں حصہ نہیں لیا۔
مشرقی یوکرین کے دوسرے علاقے لوہانسک سے ابھی نتائج کی کوئی اطلاع نہیں ملی جہاں اتوار کے روز ایسی ہی رائے شماری کرائی گئی۔
یوکرین کے مرکزی حکومت نے ووٹنگ کے اس عمل کو "مجرمانہ ڈھونگ"سے تعبیر کیا اور امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے یہ کہہ کر اس کی مذمت کی کہ یہ غیر قانونی ہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس نام ’’نہاد آزادی‘‘ کا کیا مطلب ہو گا آیا کہ اس سے مراد یوکرین کے اندر زیادہ خومختاری، ایک آزاد ریاست کا قیام یا روس میں شامل ہونے کی کوشش ہو گی۔
روسی صدر ولادیمر پوٹن نے علیحدگی پسندوں پر زور دیا تھا کہ وہ اتوار کو ہونے والی ووٹنگ کو ملتوی کر دیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اسے مایوسی ہوئی ہے کہ کریملن نے علیحدگی پسندوں پر ووٹنگ کا عمل ملتوی کرنے کے لیے اپنا زیادہ اثر و رسوخ استعمال نہیں کیا۔