پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی سے متعلق بھیجے گئے ایک ریفرنس کو اس بنا پر مسترد کردیا ہے کہ وزیراعظم کو آئین کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔
ایک وکیل اظہر صدیق نے گزشتہ ماہ اسپیکر ایاز صادق کو بھیجے گئے ریفرنس میں آئین کی شق 63 کی ذیلی شق دو کے تحت وزیراعظم کی اہلیت پر سوال اٹھایا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ نواز شریف احتجاجی جماعتوں سے مذاکرات میں فوج سے کردار ادا کرنے سے متعلق ایوان میں خطاب میں مبینہ طور پر دروغ گوئی کے مرتکب ہوئے اس لیے انھیں نااہل قرار دیا جائے۔
تاہم اسپیکر قومی اسمبلی نے اس پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 66 کی شق ایک کے تحت وزیراعظم کو استثنیٰ حاصل ہے اور اس کے تحت وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں کی گئی کسی بات کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
انھوں نے اس ریفرنس کو بے بنیاد اور حقائق سے منافی قرار دیا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم کے خلاف اسپیکر کو ریفرنس بھیجنے کے لیے اسمبلی کا رکن ہونا ضروری نہیں۔ اظہر صدیق نے اسپیکر کے فیصلے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔
دریں اثناء جمعرات کو ہی عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔
حکومت مخالف تحریک انصاف کی طرف سے دائر درخواست کی پیروی کرنے والے وکیل نے بینچ کو بتایا کہ فوج اور عدلیہ کے خلاف منفی بات کرنے والا رکن پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 68 کے تحت نااہل ہو جاتا ہے۔
بینچ میں شامل میں جسٹس دوست محمد خان نے استفسار کیا کہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان ہونے والی بات بند کمرے میں ہوئی تو کیا درخواست گزار کے وکیل آرمی چیف کو بطور گواہ یا پھر ان کا بیان حلفی عدالت میں پیش کرسکتے ہیں۔ جس پر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
وکیل نے اپنی درخواست میں ترمیم کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت نے سماعت 15 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
ادھر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حکومت مخالف اپنے احتجاج کے دائرے کو بڑھاتے ہوئے جلسوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
جمعرات کو انھوں نے میانوالی میں ایک بڑے جلسے سے خطاب میں ایک بار پھر حکومت خصوصاً وزیراعظم نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کے مطالبے کو دہرایا۔
"میں اس وقت تک دھرنے سے نہیں اٹھوں گا جب تک گو نواز گو نہیں ہو جاتا، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دھاندلی کر کے حکومت میں آئے ہیں، آپ کا کپتان جب کسی کو پکڑ لیتا ہے تو پھر وہ اسے چھوڑتا نہیں۔"
حکومت گزشتہ عام انتخابات میں دھاندلی کے الزام کی تحقیقات ایک غیر جانبدار عدالتی کمیشن سے کروانے پر رضا مندی ظاہر کر چکی ہے لیکن عمران خان کا اصرار ہے کہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر نواز شریف کے ہوتے ہوئے وہ کسی بھی طرح کی تحقیقات کی شفافیت سے مطمیئن نہیں ہوں گے لہذا وزیراعظم مستعفی ہوں اور پھر اس دھاندلی کی تحقیقات کروائی جائیں۔
عمران خان کے علاوہ طاہر القادری کی جماعت عوامی تحریک بھی ڈیڑھ ماہ سے اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دیے ہوئے ہے۔ انھوں نے بھی عیدالضحیٰ کے بعد جلسوں کا اعلان کیا ہے۔
حکومت اور پارلیمان میں موجود دیگر سیاسی جماعتیں وزیراعظم سےمستعفی ہونے کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکی ہیں کہ ماورائے آئین کوئی بھی مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔