والد کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرنے کے عالمی دن 'فادرز ڈے' یا باپ کے نام ایک دن کے موقع پر شہزادہ ولیم نے بھی ایک باپ کی حیثیت سے اپنا تیسرا فادرز ڈے منایا ۔
برطانوی شاہی خاندان کے شہزادے ولیم نے اس موقع پر دنیا کےتمام والدکو یہ پیغام بھیجا ہےکہ آج اس دن کو مناتے ہوئے وہ اپنے بچوں کے ساتھ ذہنی صحت پر بات چیت کریں۔
لگ بھگ تین برس کے شہزادہ جارج اور ایک برس کی شہزادی شارلے کے والد شہزادہ ولیم نے فادرز ڈے کے موقع پر برطانوی اخبار سنڈے ایکسپریس میں اداریاتی کالم لکھا ہے۔
ڈیوک آف کیمبرج شہزادہ ولیم لکھتے ہیں کہ ایک باپ ہونے کے ناطے میں اپنا تیسرا فادرز ڈے منارہا ہوں ،میرے لیے، یہ دن صرف اپنےخاندان کے ساتھ خوشی منانے کا نام نہیں ہےبلکہ یہ دن ظاہرکرتا ہےکہ میں نے والدین کی ذمہ داریوں اور زندگی کے ہر شعبے میں باپ کو درپیش مسائل کے بارے میں کتنا کچھ سیکھا ہے ۔
انھوں نے کہا کہ یہ دن اپنے بچوں کی ذہنی ضروریات کی اہمیت پر غور کرنے کا بھی دن ہے خاص طور پر یہ میرے لیے میرے دو بچوں کی نا صرف جسمانی صحت کی دیکھ بھال بلکہ ان کی جذباتی ضروریات کی ذمہ داریاں پورا کرنے بھی دن ہے۔
برطانوی سلطنت کے ولی عہد شہزادہ چارلس کے بڑے صاحبزادے شہزادہ ولیم نے لکھا کہ یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ باپ اپنے احساسات کے بارے میں کم کھل کر بات کرتے ہیں اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں سے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں لیکن، اب ہمارے پاس واقعی کوئی انتخاب نہیں بچا ہے۔
شہزادہ ولیم نے لکھا کہ میں نے شہزادی کیتھرین اور شہزادہ ہیری کے ساتھ ذہنی صحت کے مسائل پر کافی کام کیا ہے۔ ایک حالیہ سروے سے پتا چلا ہے کہ نصف سے زائد والدین اپنے بچوں کے ساتھ ان کی ذہنی صحت کے بارے میں کبھی بات چیت نہیں کرتے ہیں ۔
شہزادہ ولیم کے مطابق بیس فیصد بچے گیارہ برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی ذہنی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں جو ان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کردیتا ہے اور یہ مسئلہ یونہی حل کئے بغیر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ دکھ کی بات یہ ہے کہ لگ بھگ ایک تہائی والدین اپنے بچوں کی ذہنی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں جبکہ ایک تہائی سے بھی کم والد اپنے بچوں کی جذباتی ضروریات کو ترجیح سمجھتے ہیں۔
تاج برطانیہ کے دوسرے ولی عہد شہزادہ ولیم نے لکھا کہ میں آج کے دن دنیا کے تمام والد کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس فادرز ڈے پر ایک لمحہ نکال کر اپنے بچوں سے پوچھیں کہ وہ کیسے ہیں ۔
اور اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں اپنے دوستوں ،ساتھیوں یا اہلیہ کے ساتھ اپنے احساسات کا تبادلہ کرنا چاہیئے کہ وہ ایک باپ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو کس طرح پورا کر رہے ہیں۔
انھوں نے اپنے اختتامی نوٹ پرلکھا کہ یہ جان لیں کہ اگر آپ کے بیٹی یا بیٹے کو کبھی مدد کی ضرورت پڑئے گی تو اسے ماں کی مدد کے ساتھ ساتھ باپ کی رہنمائی اور تعاون کی بھی اتنی ہی ضرورت ہوگی۔