پاکستان نے چین کی مدد سے تیار کی جانے والی اپنی نئی بندرگاہ کے تحفظ کے لیے خصوصي بحری فورس کی بنیاد رکھی ہے۔
اس بندرگاہ کو پاکستان اور چین کے درمیان اربوں ڈالر مالیت کے اقتصادی تعاون میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
چین سڑکوں، ریل، مواصلات اور توانائی کے منصوبوں کے ایک نیٹ ورک پر پاکستان میں تقربیاً 50 ارب ڈالر صرف کررہا ہے۔ جس سے چین کے مغربی علاقے سنکیانگ کو بحیرہ عرب پر واقع گہرے پانیوں تک رسائی حاصل جائے گی۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری جسے سی پیک بھی کہا جاتا ہے، گوادر کو ایک ایسے گیٹ وے میں بدل دے گا جس سے سنکیانگ کو برآمدات اور برآمدات کے لیے بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی مل جائے گی۔
پاکستان کے اعلیٰ سول اور فوجی عہدے داروں اور چینی سفارت کاروں نے منگل کے روز گوادر کا دورہ کیا جہاں انہوں نے پاکستان نیوی کے تحت قائم کی جانے والی’ ٹاسک فورس 88‘کی افتتاحي تقریب میں شرکت کی۔
ڈپٹی چیف آف نیول سٹاف ظفر محمود عباسی نے اس موقع پر بتایا کہ نئی فورس کا مقصد گوادر کی بندرگاہ کی سیکیورٹی ہے اور سی پیک سے منسلک پانیوں کی نگہبانی کے دیگر أمور بھی اس کے ذمے ہوں گے۔
پاکستان کی فوج نے پہلے ہی چینی کارکنوں اور سی پیک کے تحت بنائے جانے والے زمینی راستوں کے تحفظ کے لیے 20 ہزار افراد پر مشتمل اسپیشل سیکیورٹی ڈویژن قائم کر دیا ہے۔
گوادر کی بندرگاہ شورش کی زد میں آئے ہوئے صوبے بلوچستان میں واقع ہے۔ اس صوبے میں سی پیک سے منسلک کئی منصوبے بھی تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
پاکستانی عہدے دار بھارت پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اقتصادی راہداری کی تعمیراتی کوششوں کو نقصان پہنچانے کی غرض سے بلوچ علیحدگی پسندوں کی مد د کر رہا ہے۔
نئی دہلی کی حکومت اس الزام کو مسترد کرتی ہے۔
اسلام آباد أفغانستان میں اسلامک اسٹیٹ سے منسلک عسکری گروپوں کو بھی سی پیک کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ چینی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ سٹرکوں اور زمینی راستوں پر مشتمل یہ منصوبہ بین الاقوامی کمیونٹی کے اہم مفادات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ اور خطے کی عمومی ترقی اور خوشحالی میں بھی کردار ادا کرے گا۔