پاکستان اور چین نے اس ہفتے پاکستان کی جنوب مغربی بندر گاہ گوادر کے ذریعے بیرون ملک تجارتي سامان بھیجنے کے عمل کا آغاز کیا۔
یہ منصوبہ دونوں قریبی ہمسایہ ملکوں کے درمیان اربوں ڈالر مالیت کے اقتصادی معاہدے کا ایک حصہ ہے۔
چھالیس ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری سے پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت سٹرکیں، ریلوے، مواصلات اور بجلی کے منصوبے تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
گہرے پانیوں کی بندرگاہ گوادر کو چینی سرمائے اور تکنیکی معاونت سے تعمیر کیا جا رہا ہے اور یہ بندرگاہ چین کے علاقے سنکیانگ اور بین الاقوامی منڈیوں کے درمیان ایک اہم دروازے کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہ بندرگاہ تجارتی لحاظ سےدنیا کے تین اہم ترین علاقوں کو سہولت فراہم کرتی ہے جن میں تیل کی دولت سے مالا مال مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا شامل ہیں۔
یہ بندرگاہ خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے۔
اتوار کے روز پاکستانی اور چینی عہدے دار چین سے ٹرکوں کے پہلے قافلے کا خیر مقدم کرنے کے لیے گوادر میں جمع ہوئے۔
ان ٹرکوں نے گوادر کی بندرگاہ تک پہنچنے کے لیے تین ہزار کلومیٹر کا طویل فاصلہ طے کیا تھا اور وہ درہ خنجراب سے پاکستان میں داخل ہوئے جو دنیا کی سب سے بلند سرحدی گذرگاہ ہے۔
اس موقع پر چین کے سفیر نے کہا کہ یہ سفر مقامی سڑکوں کے قابل عمل ہونے اور مختلف راستوں پر مبنی ایک راہداری کے تصور کی حقیقت کو ثابت کرتا ہے۔
پاکستانی راہنماؤں کو توقع ہے کہ یہ راہداری خطے کے اربوں لوگوں کے لیے ترقی اور خوش حالی لائے گی۔
پاکستان کے وزیر اعظم نوازشریف نے گوادر میں ہونے والی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اقتصادی لحاظ سے اہم تین علاقوں جنوبی ایشیا، چین اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔ سی پیک ان خطوں کو اقتصادی طور پر ایک دوسرے سے مربوط کرنے کا موقع فراہم کرے گا جس سے علاقے کے لوگوں کے لیے نئے موقع پیدا ہوں گے اور دنیا بھر سے سرمایہ کاری آئے گی۔
پاکستان کو حکومت مخالف جماعتوں کی جانب سے اس تنقید کا سامنا ہے کہ اقتصادی راہداری سے منسلک منصوبوں اور چینی سرمایہ کاری کا ایک بڑا حصہ پنجاب کی جانب منتقل کر دیا گیا ہے۔
حکومتی عہدے دار ان الزامات کی سختی سے ترديد کرتے ہیں۔
سیکیورٹی اور سیاسی خدشات کے باوجود چینی اور پاکستانی عہدے دار کہتے ہیں کہ سی پیک سے منسلک منصوبے عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور ان میں تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ابتدائی 24 میں سے 16 منصوبوں پر تعمیراتی کام ہو رہا ہے جو 2018 تک مکمل ہوجائیں گے اور ان سے مقامی آبادی کے لیے روزگار کے ہزاروں نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
اسلام آباد میں قائم نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز کے ایک ماہر اقتصاديات اطہر مقصود احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں سی پیک کے بغیر بھی ترقی کی علامتیں پہلے سے موجود ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سی پیک کی مدد سے ترقی کی متوقع شرح افزائش کچھ بہت زیادہ نہیں ہے۔ یہ رفتار ہم ماضی میں بھی حاصل کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی راہداری پر ہونے والے زیادہ تر بحث مباحثے قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔ سی پیک سے پاکستان کو ملنے والے حصے کے متعلق حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس سلسلے کی جو دستاویزات متعلقہ پاکستانی اور چینی وزارتوں کے پاس ہیں وہ اس بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتیں۔