چین سے ایک ہفتہ قبل روانہ ہونے والی درجنوں مال بردار گاڑیوں کا پہلا قافلہ مغربی روٹ کے ذریعے آئندہ دو روز میں گوادر پہنچ جائے گا، جہاں سے اُن کا سارا مال مشرق وسطیٰ اور دیگر متعلقہ ممالک کو بحری جہازوں کے ذریعے روانہ کیا جائیگا۔
وفاقی وزیر برائے پورٹ اینڈ شپنگ میر حاصل خان بزنجو نے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کے ذریعے قافلے کے بلوچستان پہنچنے کے عمل کو ایک بڑی پیش رفت ہے۔
وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی گفتگو میں میر حاصل خان بزنجو کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کے ذریعے اتنی بڑی تعداد میں مال بردار گاڑیوں کے پہنچنے سے لوگوں میں اعتماد بڑھے گا اور بلوچستان کے بعض حلقوں میں اس روٹ کے حوالے سے جو خدشات ہیں وہ اب کم ہوتے جائیںگے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس راستے کے ذریعے آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہے گا، وفاقی وزیر نے اس تاثر کی نفی کی کہ بلوچستان کے لوگوں کو ’سی پیک‘ کے منصوبے میں روزگار کے مواقع کم مل رہے ہیں۔
’’وہا ں پر پہلی پائپ فیکٹری چائینیز شروع کر رہے ہیں ۔۔۔ ہم اپنی وزارت کی طرف سے یہاں ٹیکنیکل سینٹر شروع کر چکے ہیں۔۔۔ لو گوں کو روزگار کے کافی مواقع ملیں گے بہتر یہ ہوگا کہ ہم سی پیک کی حمایت کریں تو باقی صوبے اس سے مستفید ہوں گے اور بلوچستان بھی ہو گا۔‘‘
میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ اس مقصد کے لیے صوبے کے نوجوان خود کو تیار کریں اور اُن کے بقول گوادر میں صرف ایک یا دو نہیں متعدد فیکٹریاں لگیں گی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ مال برداری کا یہ سلسلہ مستقبل میں جاری رہے گا۔
’’یہ پہلا اور آخری کھیل نہیں ہے یہ پہلی ضرور ہے ہمارا تھوڑا سا یہ روڈ کا مسئلہ آرہا تھا ہائی وے کا اور یہ جولائی میں مکمل ہو جائیگا تو پھر یہ جاری رہے گا ، اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ گوادر کی بندرگاہ مکمل طور پر تیار ہے اس قافلے سے پہلے وہاں سے یوریا، گندم اور مچھلی برآمد کی جاتی رہی ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان 46 ارب ڈالر کی مالیت سے پاک چین اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہو چکا ہے، بلوچستان سے گزرنے والا منصوبے کے مغربی روٹ کی مسافت تقریباً گوادر سے ژوب تک 1100 کلو میٹر بنتی ہے۔ تاہم اس روٹ کا گوادر سے ہوشاب تک کا صرف 460 کلو میٹر حصہ مکمل کیا گیا ہے جبکہ ہو شاب سے سوراب تک سڑک کی تعمیر اور اس روٹ میں آنے والے پُل ابھی اب تک تعمیر نہیں کیے گئے۔