نیپال کے حکام نے کہا ہے کہ انہوں نے اس آخری ریچھ کو بھی اپنی تحویل میں لیا ہے جو گلی کوچوں میں ناچ کر اپنے مالک کو روزی فراہم کر رہا تھا۔
اتوار کے روز اس ناچنے والے ریچھ کے حکام کی تحویل میں جانے کے بعد نیپال میں قرون وسطی سے جاری یہ تفریح ختم ہو گئی ہے۔
جانوروں کے حقوق کے کارکن اس تفریح کو ریچھ کی نسل کے ساتھ ظلم و زیادتی قرار دیتے ہیں۔
نیپال میں ریچھ نچانے پر 1973 میں پابندی لگا دی گئی تھی لیکن غیر قانونی طور پر یہ سلسلہ جاری تھا اور ایشیا کے اس جنوبی ملک میں بہت سے خاندان گلی کوچوں میں ریچھ نچا کر اپنی روزی کما رہے تھے۔
ایک سال پہلے ریچھ نچانے کے خلاف شروع کی جانے والی مہم میں پولیس اہل کار اور جانوروں کے حقوق کے نگہبان دور دراز علاقوں میں چھاپے مار کر ریچھوں کو اپنی تحویل میں لے رہے تھے۔ چھاپہ مار ٹیم کو آخری ریچھ بھارت کی سرحد کے ساتھ واقع ضلع روٹاہاٹ کے علاقے سے ملا۔
ضلعی پولیس کے سربراہ یاگیا بندوڈ پوکھارل نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ہمیں ریچھ کے متعلق خفیہ معلومات ملی تھیں اور ہم نے چھاپہ مار کر اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔
ریچھ جیسے بھاری بھرکم اور خونخوار درندے کو گلی کوچوں میں ناچنے کے لیے سدھانا کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس کے لیے کافی وقت اور محنت کی ضرورت پڑتی ہے۔
بالغ ریچھوں کو سکھایا نہیں جا سکتا۔ ریچھ نچانے والے اس مقصد کے لیے ریچھ کے چھوٹے بچے چوری کرتے ہیں اور پھر انہیں اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر ناچنا سکھاتے ہیں۔ ریچھ کا بچہ بھی رقص کرنا آسانی سے نہیں سیکھتا۔ سدھانے والا لوہے کی ایک تپتی ہوئی سلاخ اپنے پاس رکھتا ہے اور جب ریچھ کا بچہ حکم نہیں مانتا تو وہ گرم سلاخ سے اسے پیٹتا ہے۔ اس عمل میں کئی مہینے لگتے ہیں اور آخرکار وہ مار کے ڈر سے رسی یا زنجیر کے ہلانے پر نچانے لگتا ہے ۔
پولیس اور جانوروں کے حقوق کے عالمی ادارے کے ساتھ ریچھوں کی بازیابی کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکن منوج گوتم نے میڈیا کو بتایا کہ ہم نے ریچھوں کا جوڑا اپنی تحويل میں لیا ہے اور یہ نیپال کے وہ آخری ریچھ ہیں جنہیں نچا کر روزی کمانے کا کام لیا جا رہا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ مالک نے 19 سالہ نر ریچھ کا نام رنگیلا اور 17 سالہ مادہ ریچھ کا نام سری دیوی رکھا ہوا تھا۔ جوڑے کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ ان پر یہ تشدد ناچ سکھانے کے دوران کیا گیا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بہت خوشی ہے کہ ہم نے انہیں عمر بھر کے دکھ اور غلامی سے نجات دلا دی ہے اور اب نیپال کے کسی بھی حصے میں کوئی ایسا ریچھ باقی نہیں رہا جو اپنے مالک کا پیٹ پالنے کے لیے گلی کوچوں میں ناچتا ہو۔
ان ریچھوں کا کھوج ان کے مالک کے موبائل فون سے لگایا گیا۔
تحويل میں لیے گئے ریچھوں کو نیپال میں جانوروں کے تحفظ کے لیے مختص سب سے بڑے پارک پارسا وائلڈ لائف میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
تاریخ کے مطابق جنوبی ایشیا میں ریچھوں کو نچانے کا سلسلہ 13 ویں صدی میں شروع ہوا تھا۔ ریچھوں کو سدھانے کا کام قلندر نامی ایک مسلم قبیلہ کرتا تھا۔ اور وہ درباروں اور امرا کے سامنے ریچھ نچا کر اپنی روزی کماتے تھے۔
ہمسایہ ملک بھارت میں 2012 میں ناچنے والے ریچھوں کا مکمل خاتمہ ہوگیا تھا۔
جنوبی ایشیا میں ریچھ بھارت، نیپال، سری لنکا اور بھوٹان میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن شکار کی وجہ سے ان کی تعداد مسلسل گھٹ رہی ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ ریچھوں کی نسل کو ختم ہونے کے خطرے کا سامنا ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں 20 ہزار سے بھی کم ریچھ باقی رہ گئے ہیں۔