بلوچستان کے ضلع لورالائی میں والد نے پسند کی شادی کی خواہش پر اپنے نوجوان بیٹے کی دونوں آنکھیں نکال دیں۔
پولیس نے ملزم اور اُس کے دو جوان بیٹوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔
پسند کی شادی پر اصرار کرنے والے نوجوان عبدالباقی نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ وہ جس لڑکی سے پسند کی شادی کرنا چاہتا تھا اس کے والدین اور خاندان کے دیگر افراد شادی پر راضی تھے جب کہ اس کی اپنی والدہ بھی اس کی پسند سے متفق تھیں۔
نوجوان کے بقول اس کے بھائی اور والد اس کی پسند کی شادی سے ناخوش تھے اور انہوں نے اسے شادی سے باز رکھنے کے لیے اسے مارا پیٹا اور اس کے بعد ہاتھ اور پاﺅں رسی سے باندھ کر ایک چمچ کے ذریعے اس کی دونوں آنکھیں نکال دیں۔
عبدالباقی نے بتایا کہ تشدد کے بعد اس کا ایک بھائی اسے اُٹھا کر لورالائی اسپتال لے گیا جہاں سے اسے کوئٹہ میں واقع آنکھوں کے ایک اسپتال لایا گیا لیکن ان کی آنکھیں بچائی نہیں جاسکیں۔
کرایے کی ٹیکسی چلانے والے عبدالباقی کے چار اور بھائی ہیں اور ان کے بقول سات افراد پر مشتمل ان کا خاندان لورالائی بازار کے نواحی علاقے کلی ناصر آباد میں انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہا ہے۔
سانحے کے بعد عبدالباقی کو ابتدائی طبی امداد کے بعد کوئٹہ سے کراچی بھیج دیا گیا تھا تاکہ ان کی کم از کم ایک آنکھ ضائع ہونے سے بچ سکے لیکن کراچی میں بھی ڈاکٹروں نے ان کی آنکھیں بچانے سے معذوری ظاہر کردی ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کی آنکھوں کی چھوٹے چھوٹے نسیں یا رگیں کاٹ کر آنکھ کے اندرونی حصے کو زخمی کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے آنکھیں ٹھیک نہیں ہو سکتیں۔
پولیس انسپکٹر لورالائی مجیب الرحمان لونی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ نوجوان عبدالباقی کی آنکھیں نکالنے والے باپ اور اُس کے دو بیٹوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور اُن کے قبضے سے وہ چمچ اور رسی بھی برآمد کر لی گئی ہے جس سے نوجوان کو باندھ کر اس کی آنکھیں نکالی گئی تھیں۔
پولیس انسپکٹر نے بتایا کہ باپ اور دونوں بیٹوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے جب کہ ان کے مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کا دفعہ کا بھی اضافہ کیا جائے گا۔
مجیب الرحمان نے وی او اے کو بتایا کہ جب تھانے میں بند عبدالباقی کے والد کو بتایا گیا کہ ان کے بیٹے کو کراچی لے جایا گیا تھا جہاں ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ اُس کی دونوں آنکھیں ضائع ہوگئی ہیں تو انہوں نے اس پر پشیمانی کا اظہار کرنے کے بجائے کہا کہ اُسے اپنے کیے کی سزامل گئی۔ البتہ والد کے ساتھ گرفتار دونوں بھائیوں نے واقعے پر پشیمانی اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
مرکزی جامع مسجد کوئٹہ کے امام اور عالمِ دین مولانا انوار الحق حقانی کا کہنا ہے کہ ہر بالغ مسلمان کو پسند کی شادی کرنے کا شرعی حق حاصل ہے بلکہ شریعت میں یہ بھی واضح ہے کہ اگر کسی کی بیٹی عاقل و بالغ ہو تو اُس کا کسی سے نکاح کر نے سے پہلے بیٹی سے اجازت لینا ضروری ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں میں مولانا انوار الحق نے کہا کہ صرف پسند کی شادی پر بیٹے پر بہیمانہ تشدد ایک غیر شرعی، ناروا، قبیح اور سفاکانہ عمل ہے اور اس کے مرتکب افراد کو سخت سزا ملنی چاہیے تاکہ دوسروں کے لیے بھی ایک مثال قائم ہو۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی بلوچستان شاخ کے وائس چیئرپرسن حبیب طاہر ایڈوکیٹ نے وی او اے سے گفتگو کے دوران اس واردات کو غیر انسانی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے معاشرے میں تشدد کا رُحجان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ لوگ انسانوں پر زیادہ سے زیادہ سے تشدد کرکے تسکین محسوس کر نے لگے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کہ پسند کی شادی پاکستان کے ہر بالغ شہری لڑکے اور لڑکی کا بنیادی آئینی اور قانونی حق ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جن دفعات کے تحت ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے ان کے تحت جرم ثابت ہونے پر انہیں دس سال سے زائد قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
عبدالباقی کا تاحال کراچی کے ایک اسپتال میں علاج جاری ہے اور انہوں نے مطالبہ کیا یے کہ ان کے والد اور ان کی معاونت کرنے والے بھائیوں کو سخت سزا دی جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔