خیبر پختونخوا میں لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں ہونے والی تقریبات میں مہمان خصوصی کے طور پر مردوں کی شرکت پر پابندی کے حالیہ فیصلے پر ملا جلا رد عمل سامنے آرہا ہے۔
حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف اس کے حق میں ہے تو انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم کارکن اس فیصلے کو صوبے کے مستقبل کے لئے خطرناک خیال کرتے ہیں۔
چند روز قبل وزیراعلیٰ محمود خان کی ہدایت پر مشیر تعلیم ضیاء اللہ بنگش نے صوبے بھر میں خواتین کے تعلیمی اداروں میں ہونے والی تقریبات میں مرد حضرات کی بحیثیت مہمان خصوصی شرکت پر پابندی کا اعلان کیا تھا ۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت میں ضیاء اللہ بنگش نے اس فیصلے کو خیبر پختونخوا کی روایات کے مطابق قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے تعلیمی ترقی یا زندگی کے دیگر شعبوں میں خواتین کی شرکت متاثر نہیں ہوگی ۔
اُن کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ نے یہ فیصلہ والدین کی درخواست پر کیا ہے ۔ ساتھ ہی انہوں نے اس فیصلے کے مثبت نتائج سامنے آنے کی توقع ظاہر کی۔
خیبر پختونخوا میں تعلیمی ترقی کیلئے متحرک ڈاکٹر خادم حسین نے صوبائی حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہ صرف حکمراں جماعت کی پالیسوں کی نفی ہے بلکہ اس سے اس صوبے میں دوبارہ مذہبی انتہا پسندی کو فروع ملے گا۔
خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم رحشندہ ناز نے بھی صوبائی حکومت کے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ صنف کی بنیاد پر خواتین سے تفریق مناسب نہیں ۔
اُنہوں نےیہ بھی کہا کہ اس سے خواتین کے ساتھ امتیاز ی سلوک کو پھیلنے کا موقع ملے گا اور ایک غلطی مثال قائم ہوگی۔
نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاء الدین یوسفزئی نے بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے صوبائی حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ اس فیصلے سے خواتین کے تعلیم اور زندگی کے دیگر شعبوں میں شامل ہونے کے رحجان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں رہنے والے بعض والدین اور مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے عہدیدارو کارکن صوبائی حکومت کے اس فیصلے سے خوش دکھائی دیتے ہیں ۔