اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تعزیراتی کمیٹی نے بدھ کو کالعدم شدت پسند تنظیم جش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو عالمی دہشت گروں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ اس سے قبل چار بار چین کی مخالف کی وجہ سے مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی کوششں کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔
رواں سال فروری میں بھارت کے زیر انتظام کمشیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی سیکورٹی فورسز پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری جیش محمد نے قبول کی تھی جس کے سربراہ مسعود اظہر پاکستانی شہری ہیں۔ اس واقعہ کے بعد امریکہ برطانیہ اور فرانس نے مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بلیک لسٹ کروانے کی تجویز دی تھی۔
بدھ کو چین نے مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی تجویز پر اپنا تیکنکی التوا کا ختم کر دیا جس کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تعزیراتی کمیٹی 1267 نے مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔
لیکن آخر مسعود اظہر کون ہیں اور بھارت کیوں انھیں دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرانا چاہتا تھا؟ وائس آف امریکہ نے انہی سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
مولانا مسعود اظہر کون ہیں؟
مولانا مسعود اظہر کالعدم شدت پسند تنظیم جیشِ محمد کے بانی اور سربراہ ہیں۔
مسعود اظہر بھی اپنے بیشتر ساتھیوں کی طرح افغانستان پر روس کے حملے اور اس کے خلاف افغان مجاہدین کی جدوجہد کے دنوں میں سرگرم ہوئے اور پھر افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد انھوں نے لشکرِ طیبہ کے بانی حافظ سعید کی طرح اپنے "جہاد" کا رخ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی جانب موڑ دیا۔
مسعود اظہر جولائی 1968ء میں بہاولپور میں پیدا ہوئے تھے۔ اُن کے والد سرکاری اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور دیو بند مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔
مسعود اظہر کو مذہبی تعلیم دلانے کے لیے بہاولپور سے کراچی بھیجا گیا جہاں وہ بنوری ٹاؤن مسجد سے منسلک 'جامعہ العلوم اسلامیہ' میں زیرِ تعلیم رہے۔
اسی درس گاہ میں اُن کی ملاقات حرکت المجاہدین کے امیر فضل الرحمان خلیل سے ہوئی۔ عمر سعید شیخ بھی اُن کے قریبی دوست تھے جن کا نام بعد ازاں امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل کے سلسلے میں منظرِ عام پر آیا۔
اطلاعات کے مطابق مسعود اظہر نے افغانستان میں عسکری تربیت لی اور وہاں جاری روس کے خلاف لڑائی میں بھی حصہ لیا۔
لیکن افغانستان سے روسی افواج کے انخلا کے بعد مسعود اظہر بھارت کے زیرِ انتظام کشیمر چلے گئے اور وہاں انھوں پاکستان سے آنے والے عسکریت پسندوں کی مدد کی۔
یہ وہ وقت تھا جب کشمیر کا محاذ خاصا گرم تھا۔
سنہ 1994 میں کشمیر کے علاقے اننت ناگ میں ایک چھاپے کے دوارن بھارت کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مسعود اظہر کو حراست میں لے لیا۔
اس کے ساتھ ہی اُن کے ساتھیوں نے انھیں چھڑانے کے لیے منصوبہ بندی شروع کی۔
مسعود اظہر کے ساتھیوں نے پہلے سری نگر میں ایک یورپی سیاح کو اغوا کیا اور اس کی رہائی کے عوض مسعود اظہر کو رہا کرنے کی شرط رکھی۔
مسعود اظہر کی حراست کے 10 ماہ بعد بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں کچھ سیاحوں کو نامعلوم افراد نے اغوا کیا اور مغوی سیاحوں کی رہائی کے بدلے ایک بار ہھر مسعود اظہر کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔
ان دونوں کوششوں کے ناکام ہونے کے بعد آخرِ کار مسعود اظہر کو ان کے ساتھی ڈرامائی انداز میں رہا کرانے میں کامیاب ہوگئے۔
مسعود اظہر اور جیشِ محمد
دسمبر 1999ء میں مسعود اظہر کے ساتھی ایک بھارتی مسافر طیارے کو اغوا کر کے افغانستان کے شہر قندھار لے گئے اور کئی دن کی بات چیت کے بعد جہاز اور اس میں سوار مسافروں کے بدلے مسعود اظہر کو رہا کرانے میں کامیاب ہو گئے۔
اُس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی۔ طالبان کے ساتھ بہتر تعلقات ہونے کے سبب چند دن قندھار میں قیام کرنے کے بعد مسعود اظہر پاکستان آ گئے۔
یہیں ان کے دیرینہ دوست فضل الرحمان خلیل اور اُن کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور انھوں نے اپنی نئی جماعت جیشِ محمد بنانے کا اعلان کیا۔
قیام کی ابتدا میں اُن کی جماعت کی سرگرمیاں زیادہ تر افغانستان میں تھیں۔ لیکن 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد امریکہ نے جب افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ شروع کی تو مسعود اظہر بہاولپور منتقل ہوگئے۔
اپنے آبائی شہر بہاولپور کو انھوں نے اپنی تنظیم جیشِ محمد کا مرکز بھی بنایا لیکن ساتھ ہی تنظیمی دفاتر ملک کے مختلف شہروں میں بھی قائم کیے۔
مسعود اظہر کی تنظیم جیشِ محمد کا مدرسہ اور دفاتر بہاولپور میں کئی ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔
مسعود اظہر اور کشمیر کا محاذ
پاکستان میں اپنی جماعت بنانے کے بعد مسعود اظہر نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی مسلح سرگرمیاں جاری رکھیں اور بعض اطلاعات کے مطابق جنگجووں کی بھرتی کرنے کے بعد انہیں کشمیر میں لڑنے کے لیے عسکری تربیت دیتے رہے۔
بھارتی حکام نے اکتوبر 2001ء میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی اسمبلی اور دسمبر 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کی ذمہ داری جیشِ محمد پر عائد کی۔
عالمی دباؤ کے بعد 2002ء میں اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے جیشِ محمد پر پابندی لگادی اور مسعود اظہر کو نظر بند کر دیا۔
لیکن 14 دسمبر 2002ء کو لاہور ہائی کورٹ نے ان کی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
اسی دوران ان کی جماعت 'تنظیمِ خدام الاسلام' کے نام سے کام کرنے لگی لیکن اسے بھی بعد میں حکومتِ پاکستان نے کالعدم قرار دے دیا۔
اُس کے بعد مسعود اظہر نے گوشہ نشینی اپنائی اور بہاولپور میں ہی اپنے مدرسے میں مصروف رہے۔
بھارت کے علاقے پٹھان کوٹ میں 2016ء میں بھارتی فضائیہ کے اڈے پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے میں سات بھارتی فوجی اور چھ شدت پسند ہلاک ہوگئے تھے۔
بھارتی حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ اس حملے کی کڑیاں پاکستان میں موجود کالعدم شدت پسند تنظیم جیشِ محمد سے ملتی ہیں۔
اس الزام کے بعد صوبہ پنجاب کے اُس وقت کے وزیرِ قانون رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ کالعدم جیشِ محمد کے سربراہ سرکار کی حفاظتی تحویل میں ہیں۔
2019ء میں بھارتی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ہونے والے حملے کا الزام ایک بار جیشِ محمد پر عائد کیا گیا ہے۔ بھارت نے حملے میں جیشِ محمد کے ملوث ہونے کے مبینہ شواہد سے متعلق بعض دستاویزات بھی پاکستان کو دی ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ جیشِ محمد سمیت تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق مولانا مسعود اظہر پاکستان میں ہی ہیں اور بہت علیل ہیں۔
لیکن ایسے میں ایک بار پھر مولانا مسعود اظہر کے خلاف اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قرارداد منظور نہیں ہوسکی ہے۔ جس پر مسعود اظہر کے لیے پاکستان کی مبینہ حمایت اور چین کی معاونت مزید سوالات کو جنم دیتی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ جیشِ محمد جیسی کالعدم جماعتوں کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ ہے۔