اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تین دن کی عبوری ضمانت کی درخواست منظور کر لی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں نواز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
عدالت نے منگل تک منظور کی گئی عبوری ضمانت کی درخواست میں 20،20 لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہفتے کو نواز شریف کی صحت کے پیش نظر شہباز شریف کی جلد سماعت کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت کی۔ دوران سماعت شہباز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ نواز شریف کی صحت مزید بگڑ رہی ہے لہٰذا انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔
خواجہ حارث نے عدالت میں بتایا کہ نواز شریف کو معمولی 'ہارٹ اٹیک' بھی ہوا ہے جبکہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا فریقین نے نواز شریف کو ضمانت دینے کی مخالفت کی؟ جس پر شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ اس معاملے میں کوئی بھی معترض نہیں ہے۔
عدالت نے وزیر اعظم پاکستان، وزیر اعلیٰ پنجاب اور چیئرمین نیب کو نوٹس جاری کیے۔
عدالت نے فریقین کو عدالت میں اپنا نمائندہ بھیجنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت کچھ وقت کے لیے ملتوی کی۔
وقفے کے بعد کیس کی سماعت کے دوبارہ آغاز پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست عدالت نہیں آنی چاہیے۔ یہ حکومت کا اختیار ہے۔
سرکاری حکام کو چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ نے میڈیکل بورڈ مقرر کیا جس نے کہا کہ نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے اور بیماری جان لیوا ہے۔
انہوں نے حکام سے کہا کہ آپ کے بیان پر ہم درخواست مسترد کر دیں گے. تاہم، ذمہ دار بھی آپ ہوں گے۔ تمام ذمہ داری عدالت کے کندھوں پر نہ ڈالی جائے۔
بینچ نے پنجاب کے سیکریٹری داخلہ کو روسٹرم پر بلایا۔ اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر آپ مطمئن ہیں کہ منگل تک نواز شریف کو کچھ نہیں ہو گا تو پھر ذمہ داری لیں۔ سیکرٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ ہم کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قانون پر عمل درآمد کرنے میں ناکامی کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہر بندہ عدلیہ کو مورد الزام قرار دے رہا ہے۔ اس موقع پر بینچ میں شامل جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جس قیدی کو جان کو خطرہ ہو اسے ضمانت پر رہا کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے۔
وفاق اور صوبائی حکومتیں ذمہ داری لیں
اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے وفاق، پنجاب اور نیب پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ سزا یافتہ قیدی کے معاملے میں صوبائی حکومت کو پرزن رول 143 کے مطابق اختیار ہے کہ وہ سزا معطل کر سکتی ہے۔ پنجاب حکومت کے بنائے گئے میڈیکل بورڈ کا ہی کہنا ہے کہ نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے، ڈویژن بنچ نے اس معاملے کو منگل کے لیے رکھا ہے، فریقین اور پنجاب حکومت کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں۔ ایسی صورت میں معاملہ عدالت میں نہیں آنے چاہیے۔ عدالت نے وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب اور چئیرمین نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ آج ہی کوئی نمائندہ مقرر کر کے چار بجے عدالت بھجوائیں، متعلقہ حکام اپنے نمائندے منتخب کرکے رپورٹ پیش کریں۔
میڈیا پر ڈیل کی خبریں
جسٹس اطہر من اللہ نے مختلف ٹی وی چینلز پر نواز شریف کی رہائی کے لیے ڈیل ہونے کی باتوں پر بھی اعتراض اٹھایا اور ریمارکس دیے کہ رجسٹرار آفس نےبتایا ٹی وی چینلز پر ڈیل سے متعلق خبریں نشر کی گئیں جس پر متعلقہ چینلز اور5 اینکرز کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرکے شام چار بجے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ شام 4 بجے حکومتی نمائندے اور اینکرز حامد میر، سمیع ابراہیم، محمد مالک، عامر متین اور کاشف عباسی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اینکرز سے کہا کہ عدالت نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا، بڑی معذرت کے ساتھ آپ کو بلایا، ڈیل کی باتیں ہوتی ہیں تو بات عدلیہ پر آتی ہے، مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہم ایک فیصلہ دیتےہیں تو ججز سے متعلق میڈیا ٹرائل اور سوشل میڈیا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت سیاسی معاملات میں نہیں الجھنا چاہتی۔ ایک اینکر نے وثوق سے کہا ڈیل ہوگئی ہے، بتائیں کون ڈیل کر رہا ہے؟ کیا وزیر اعظم اور عدلیہ ڈیل کا حصہ ہیں؟۔ کیس بعد میں عدالت آتا ہے میڈیا ٹرائل پہلے ہو جاتا ہے۔ ایسی باتیں ججز کو متنازع بناتی ہیں۔ عدالت نے ڈیل سے متعلق خبروں پر اینکرز سے تحریری جواب طلب کر لیا۔
کمرہ عدالت میں اینکر حامد میر نے کہا کہ انہیں ایک نا معلوم نمبر سے کال کرکے بلایا گیا ہے۔ بعد میں عدالت نے اینکر سمیع ابراہیم اور چیف ایگزیکٹو بول ٹی وی کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ڈیل سے متعلق پروگراموں پر معاون مقرر کرنے کا فیصلہ کیا اور آئندہ سماعت پر چیئرمین پیمرا کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔
ادارے اور حکومتیں سب ملبہ عدالت پر نہ ڈالیں
چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے کہا کہ طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست عدالت نہیں آنی چاہئے۔ یہ حکومت کا اختیار ہے، میڈیکل بورڈ نے کہا ہے کہ نواز شریف کی حالت تشویشناک اور بیماری جان لیوا ہے۔ عدالت نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب اور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو ہدایت کی کہ آپ لوگ آدھے گھنٹے میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور چیئرمین نیب سے ہدایات لے کر عدالت کو بتائیں کہ وہ ضمانت کی مخالفت کریں گے یا بیان حلفی جمع کرائیں گے؟۔
'نواز شریف کو معمولی ہارٹ اٹیک ہوا'
قبل ازیں، پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا تھا کہ نواز شریف کو جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب معمولی ہارٹ اٹیک ہوا۔ تاہم، ان کے دل پٹھوں کو نقصان نہیں پہنچا۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کی تعداد 45 ہزار تک پہنچ گئی ہے جب کہ ان کے مرض کی بھی تشخیص ہو گئی ہے۔
یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو میڈیکل بورڈ کی سفارشات کے تحت ادویات دی جا رہی ہیں اور وہ علاج سے مطمئن ہیں۔
ضمانت کے لیے چھٹی کے روز درخواست
خیال رہے کہ نواز شریف کے بھائی شہباز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیش نظر العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں ضمانت کے لیے چھٹی کے روز سماعت کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
جمعے کو لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر مل کیس میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور کر لی تھی تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں ضمانت کی درخواست پر سماعت منگل تک ملتوی کی تھی۔
شہباز شریف نے درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ نواز شریف کے مرض کی تاحال تشخیص نہیں ہو سکی ہے جبکہ ان کی صحت بگڑ رہی ہے لہٰذا عدالت فوری سماعت کر کے ان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ کرے۔
لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت کی منظوری کے باوجود نواز شریف جیل سے اُس وقت تک رہا نہیں ہو سکتے جب تک العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں سزا کے خلاف ان کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت درخواست پر فیصلہ نہیں آ جاتا۔
نواز شریف کے معالجین کا کہنا ہے کہ جب تک نواز شریف کے پلیٹ لیٹس 50 ہزار سے تجاوز نہیں کر جاتے اس وقت تک انہیں بیرون ملک علاج کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
گزشتہ سماعت میں کیا ہوا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے جمعے کو نواز شریف کی العزیزیہ کیس میں طبّی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست کی سماعت کی۔
اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور ڈاکٹروں کی ٹیم بھی عدالت میں پیش ہوئی۔
سماعت کے موقع پر سروسز اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) ڈاکٹر سلیم شہزاد بھی عدالت میں موجود تھے۔
ڈاکٹر سلیم شہزاد نے کہا کہ نواز شریف کی حالت تشویش ناک ہے۔ پلیٹ لیٹس بن تو رہے ہیں۔ لیکن، پھر کم ہو جاتے ہیں۔ نواز شریف کو علاج کی بہترین سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف کی بیماری جان لیوا ہے؟ جس پر ایم ایس سروسز اسپتال نے جواب دیا کہ اگر علاج نہ ہوا تو انہیں لاحق مرض جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو ’اسٹنٹ‘ بھی ڈالے گئے تھے۔ اُن کا جو بھی علاج کیا جاتا ہے اس کی اجازت سابق وزیرِ اعظم سے تحریری طور پر لی جاتی ہے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد نواز شریف کی تفصیلی میڈیکل رپورٹ طلب کر لی تھی۔
نواز شریف کو انجائنا کی بھی تکلیف
نواز شریف کے علاج پر مامور میڈیکل بورڈ کے مطابق سابق وزیر اعظم کی طبیعت بدستور ناساز ہے۔ پلیٹ لیٹس میں اتار چڑھاؤ کے علاوہ انہیں انجائنا کی بھی تکلیف کا سامنا ہے۔
نوازشریف کے دل کے ٹیسٹ ٹروپ ٹی اور ٹروپ آئی کی رپورٹ پازیٹو آنے کے بعد انہیں خون پتلا کرنے والی دوا 'لوپرین' دوبارہ شروع کرا دی گئی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق 'ٹروپ ٹی' اور 'ٹروپ آئی' کی رپورٹ پازیٹو آنے کا مطلب دل کے دورے کی ابتدائی علاماتِ کا ظاہر ہونا ہے۔ گزشتہ روز انجائنا کی تکلیف کے باعث میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کے دل کے ٹیسٹ تجویز کیے تھے۔
نوازشریف 18 سال سے دل کے عارضے جبکہ دس سال سے شوگر اور بلڈ پریشر کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
نوازشریف کی دو دفعہ انجیوپلاسٹی اور دو دفعہ اوپن ہارٹ سرجری بھی ہو چکی ہے۔جب کہ سابق وزیر اعظم کو گردوں، کولیسٹرول اور جوڑوں کے درد کی بھی شکایات ہیں۔