لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی چوہدری شوگر ملز کیس میں درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔ مریم نواز نے اپنے والد کی بیماری کے پیش نظر لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ انہیں اپنے والد کی تیمارداری کے لیے انسانی بنیادوں پر ضمانت پر رہا کیا جائے۔
عدالتی کارروائی میں کیا ہوا؟
نیب کی جانب سے مریم نواز پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے شریف خاندان کی ملکیت چوہدری شوگر مل کے ذریعے دو ارب کی منی لانڈرنگ کی۔ نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ نے عدالت کو بتایا کہ مریم نواز کے اثاثے ان کی آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتے۔
نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ مریم نواز چوہدری شوگر مل کی سی ای او اور 45 فی صد حصص کی مالک ہیں۔ لیکن وہ اس ضمن میں اپنے جوابات سے مطمئن نہیں کر سکیں۔
مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے عدالت میں دلائل دیے کہ چوہدری شوگر مل کیس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم دیکھ چکی ہے۔ لہذٰا مریم نواز کو سیاسی بنیادوں پر انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر مل کیس میں 31 اکتوبر کو محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے انہیں ایک ایک کروڑ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے عوض رہا کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے مریم نواز کو اپنا پاسپورٹ بھی عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
مسلم لیگ ن کا ردعمل
مریم نواز کی ضمانت پر رہائی کے بعد ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے خلاف یہ مقدمہ وزیر اعظم عمران خان کے کہنے پر بنایا گیا۔
محمد زبیر کا کہنا تھا کہ چوہدری شوگر مل کیس میں مریم نواز کے خلاف کوئی کیس بنتا ہی نہیں تھا۔
مریم نواز کو کب گرفتار کیا گیا تھا؟
مریم نواز کو نیب نے آٹھ اگست کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ اپنے والد سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے لیے کوٹ لکھپت جیل میں موجود تھیں۔ مریم نواز کے ہمراہ ان کے چچازاد بھائی یوسف عباس کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
مریم نواز کی گرفتاری پر مسلم لیگ ن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے انتقامی کارروائی قرار دیا تھا۔ مریم نواز کو گزشتہ سال ایون فیلڈ ریفرنس میں بھی احتساب عدالت نے سات سال کی سزا سنائی تھی۔ ان کے والد نواز شریف کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز کی سزا معطل کر دی تھی۔
عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ عدالت نے میرٹ پر فیصلہ کیا ہے۔ حامد میر کہتے ہیں کہ عدالت کی جانب سے مریم نواز کو پاسپورٹ جمع کرانے کا حکم اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ ضمانت کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں ہے۔
قانون دان آفتاب مقصود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مریم نواز کو انسانی بنیادوں کی بجائے میرٹ پر ضمانت دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے کے پیرا گراف نمبر 26 میں تحریر ہے کہ مریم نواز نے ضمانت کے لیے انسانی بنیادوں پر رہائی کے لیے زور نہیں دیا۔
چوہدری شوگر مل کیس ہے کیا؟
نیب کا یہ الزام تھا کہ مریم نواز شریف خاندان کی ملکیت چوہدری شوگر ملز کی چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) اور شیئر ہولڈر ہیں۔ نیب کے مطابق انہیں 2018 میں یہ شواہد ملے تھے کہ چوہدری شوگر ملز کے تحت درجنوں مشتبہ ٹرانزیکشنز ہوئیں جو اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہیں۔
نیب کا یہ بھی موقف تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف، شہباز شریف، ان کے مرحوم بھائی عباس شریف کے علاوہ بعض غیر ملکی سرمایہ کار بھی چوہدری شوگر مل میں حصے دار تھے۔
نیب کا یہ بھی الزام تھا کہ 2001 سے 2017 کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ذریعے اربوں روپے مالیت کے حصص خریدے گئے اور پھر یہ شیئرز نواز شریف، حسین نواز ، حسن نواز اور مریم نواز کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کالا دھن سفید کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
خیال رہے کہ مریم نواز کے والد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بھی چند روز قبل چوہدری شوگر مل کیس میں انسانی بنیادوں پر آٹھ ہفتے کے لیے ضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔