رسائی کے لنکس

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف عدالت کون گیا؟


ریاض حنیف راہی۔ (فائل فوٹو)
ریاض حنیف راہی۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن سپریم کورٹ آف پاکستان نے معطل کر دیا ہے۔ لیکن اس حوالے سے درخواست دائر کرنے والے 'جیورسٹ فاؤنڈیشن' کے وکیل ریاض حنیف راہی کے نام کا چرچہ ہے۔

ریاض حنیف راہی نے گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے طریقہ کار کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔

صحافتی حلقوں کے مطابق، ریاض حنیف راہی عام طور پر میڈیا نمائندگان سے قریبی رابطہ رکھتے ہیں۔ لیکن مذکورہ پٹیشن دائر کرنے سے قبل انہوں نے یہ معاملہ خفیہ رکھنے کی کوشش کی۔

ذرائع ابلاغ کو رات گئے جاری ہونے والی 'کاز لسٹ' سے آرمی چیف کے خلاف کیس مقرر ہونے کا پتہ چلا جس کے بعد صحافیوں نے ریاض حنیف راہی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کا موبائل فون لگاتار بند ملتا رہا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس اہم کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ہاتھ سے لکھے ایک صفحے کی درخواست عدالت کے سامنے تھی، جس میں وکیل ریاض حنیف راہی نے اپنی دائر کردہ درخواست واپس لینے کا کہا تھا۔ لیکن عدالت نے آرمی چیف کی توسیع کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی درخواست مسترد کر دی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ انہیں نہیں معلوم کس کے دباؤ میں آ کر درخواست واپس لی گئی۔

چیف جسٹس نے بعدازاں درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل کر دیا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ (فائل فوٹو)
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ (فائل فوٹو)

ریاض حنیف راہی ہیں کون؟

ریاض حنیف راہی اسلام آباد میں وکالت کرتے رہے ہیں اور ان کا شمار ایسے وکلا میں ہوتا ہے جو عوامی مفاد سے متعلقہ درخواستیں عدالت میں جمع کراتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی وکلا میں مولوی اقبال حیدر، شاہد اورکزئی، محمود نقوی بھی شامل ہیں۔ لیکن ریاض حنیف راہی کی جانب سے اپنی درخواستوں میں اہم نکات اٹھائے جانے کے باعث قانونی حلقے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

ریاض حنیف راہی کی درخواست پر ہی سابق چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کے زیرِ استعمال بلٹ پروف گاڑی واپس لی گئی تھی۔

ریاض حنیف راہی نے سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعیناتی کو بھی چیلنج کیا تھا جسے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے مسترد کر دیا تھا۔

ریاض حنیف راہی کی پٹیشن میں کیا تھا؟

ریاض حنیف راہی نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی جس میں رواں سال آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں دی گئی تین سال کی توسیع کے طریقہ کار پر اعتراض کیا گیا تھا۔

پٹیشن میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں جس میں وزیر اعظم آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن جاری کرے۔

پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل 243 کی شق چار کے تحت صدر مملک کو سفارش کر سکتے ہیں اور صدر ہی اس حوالے سے کوئی حکم نامہ جاری کر سکتے ہیں۔

پٹیشن میں سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن 13 ایک اور دو کو حوالہ دیا گیا تھا جس کے تحت سرکاری ملازم کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال ہے۔ اور قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے اس قانون کو ختم کر دیا جائے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان (فائل فوٹو)
سپریم کورٹ آف پاکستان (فائل فوٹو)

پٹیشن میں کہا گیا کہ اگر وزیر اعظم کسی کو توسیع دینا چاہتے ہیں یا دوبارہ تقرری کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے قانون میں تبدیلی کرنا ہو گی۔

ریاض حنیف راہی نے پولیس کی ترقی اور تعیناتیوں سے متعلق ایک کیس کا حوالہ بھی دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ایسے کیسز میں اٹارنی جنرل کا یہ موقف رہا ہے کہ کسی کو کنٹریکٹ پر لا کر یا توسیع دے کر دیگر افسران کی ترقی کے راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔

ریاض حنیف راہی نے اپنی درخواست میں کہا کہ 19 اگست کو جاری کردہ اس نوٹی فکیشن کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے کر معطل کر دیا جائے۔ علاقائی سیکورٹی کے پیش نظر آرمی چیف کی مدت ملازمت کے توسیع کے معاملے پر درخواست میں کہا گیا اس ضمن میں آئین میں ترمیم کر لی جائے، تاکہ اس بنیاد پر توسیع دینے کا معاملہ غیر آئینی اور غیر قانونی نہ ہو۔

سپریم کورٹ کی طرف سے اس درخواست کو ازخود نوٹس میں بدل دینے کے بعد اب عدلیہ براہ راست اس معاملہ کو عوامی مفاد کے معاملہ کے طور پر دیکھے گی۔ لیکن، ریاض حنیف راہی اب بھی کسی صحافی کے ساتھ رابطے میں نہیں ہیں اور کئی بار ٹیلی فون اور پیغامات کے بعد بھی ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا۔

XS
SM
MD
LG