بہت سے لوگ کسی تقریب کے مقام یا دوسرے شہر جانے کے لیے ہی نہیں، گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر جانے کے لیے بھی گوگل میپس استعمال کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹریفک کے بہاؤ کا اندازہ ہوتا رہتا ہے۔ گوگل کے سرچ انجن کے بعد جو ایپ سب سے زیادہ استعمال کی جاتی ہے، وہ گوگل میپس ہی ہے۔
لیکن، یہ بات سب لوگ نہیں جانتے کہ ملک بدل جانے سے گوگل کے نقشے بھی بدل جاتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، گوگل کمپنی سیاسی مصلحتوں کے تحت اپنی ایپ کے نقشوں میں تبدیلی کرتی ہے۔ یعنی صارفین جس ملک میں موجود ہوں، اس کی پالیسی کے مطابق نقشے دکھائی دیتے ہیں۔
اگر کوئی صارف پاکستان میں موجود ہو اور گوگل سے نقشہ دیکھے تو کشمیر کی وادی متنازع نظر آئے گی۔ کوئی صارف اگر بھارت میں موجود ہو تو اسے کشمیر اور گلگت بلتستان بھارت کا حصہ نظر آئیں گے۔
اسی طرح کا تنازع جاپان اور کوریا کے درمیان سمندری پانیوں کا ہے۔ جنوبی کوریا سے گوگل میپس دیکھنے والے کو سمندر کا نام بحیرہ مشرق نظر آئے گاجب کہ جاپان میں اس کا نام بحیرہ جاپان ہوگا۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان سمندر کا نام خلیج فارس ہے یا خلیج عرب، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کس ملک سے میپس کی ایپ کو دیکھا جا رہا ہے۔
ارجنٹینا سے برطانیہ تک، اور ایران سے جاپان تک جہاں جہاں سرحدی تنازعات موجود ہیں، وہاں گوگل میپس ریاستی پالیسی کی مناسبت سے نقشے دکھاتی ہے۔
اخبار کے مطابق، آن لائن نقشے دیکھنے والے دنیا کے 80 فیصد صارفین گوگل میپس استعمال کرتے ہیں۔ 15 سال سے آن لائن راج کرنے والی ایپ کی ایک سال کی سیلز 3.6 ارب ڈالر ہے۔
گوگل میپس کا استعمال لوگوں کی روزمرہ زندگی پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ ٹریفک کی معلومات کے علاوہ مقامی کاروبار اور کسی بھی پتے تک پہنچنے میں آن لائن نقشوں کی ایپس اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
گوگل میپس کے پروجیکٹ مینجمنٹ کے ڈائریکٹر ایتھن رسل نے واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گوگل سرحدی تنازعات میں غیر جانبدار رہتا ہے اور متنازع علاقوں کو نقطوں کے ذریعے واضح کر دیتا ہے۔ لیکن، جن ملکوں میں گوگل میپس کے مقامی ورژن موجود ہیں، وہاں مقامی قوانین کی پاسداری کی جاتی ہے۔