رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ کا چھ ماہ میں کراچی سرکلر ریلوے بحال کرنے کا حکم


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

سپریم کورٹ آف پاکستان میں کراچی سرکلر ریلوے کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے منصوبے میں تاخیر پر وزیر اعظم پاکستان کو توہین عدالت کا نوٹس بھیجنے کا عندیہ دیا ہے۔

عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چھ ماہ میں سرکلر ریلوے نہ چلی تو وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، سیکریٹری ریلوے سب کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جائے گا۔

کیس کی سماعت سپریم کورٹ آف پاکستان کی کراچی رجسٹری میں ہوئی۔ سماعت کے دوران عدالت نے حکم دیا کہ سرکلر ریلوے کی بحالی کی زد میں آنے والی ساری زمین خالی کرائی جائے۔ وہاں مقیم رہائشیوں کے لیے متبادل انتظام بھی کیا جائے۔

سرکلر ریلوے اور سرکاری زمین پر قائم تجاوزات کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے کی۔

پاکستان ریلوے کے سیکریٹری حبیب الرحمان گیلانی نے سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق رپورٹ پیش کی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ زیادہ تر ٹریک خالی کرایا جا چکا ہے تاہم کالا پل کے مقام پر رہائش پذیر لوگوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تجاوزات ہٹانے کے بعد وہاں خاردار تاریں بھی لگائی جا رہی ہیں۔

عدالت نے رپورٹ پر مکمل عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ لوگوں کو روزانہ خواب نہ دکھائے جائیں۔ یہ کہانی سال بھر سے سنائی جارہی ہے۔ یہ کام بہتر طریقے سے سرانجام دیا جاسکتا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ ریلوے کی زمین پر ریل چلے۔

عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ گلشن اقبال میں ریلوے کی زمین پر ریلوے ایمپلائز کوآپریٹو ہاوسنگ سوسائٹی بن چکی ہے جسے لیز بھی مل چکی ہے۔ سوسائٹی کے عہدے داروں نے سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناع لے رکھا ہے۔

کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ کئی سالوں سے زیرِ التوا ہے۔ (فائل فوٹو)
کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ کئی سالوں سے زیرِ التوا ہے۔ (فائل فوٹو)

سیکریٹری ریلوے نے عدالت میں تسلیم کیا کہ کے ریلوے کی زمین پر گلش اقبال میں قبضہ ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ سب ریلوے، سندھ حکومت اور پولیس کی ملی بھگت سے ممکن ہوا۔ افسران کے چہروں پر بے بسی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شہر کا حلیہ یہی رہے گا۔

عدالت نے کہا کہ ایک کروڑ روپے کی پراپرٹی کوئی 20 لاکھ میں لیتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ میں رسک لے رہا ہوں۔ لہذا ان کا یہ خدشہ صحیح ہو چکا۔ سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ فوری شروع کیا جائے۔

ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سرکلر ریلوے سے متعلق 25 فروری کو چینی سفیر سے ملاقات طے ہے۔ جس کے بعد معلوم ہو گا کہ اس منصوبے کے لیے کتنے عرصے میں فنڈ جاری ہو سکیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ہماری قوم میں ایسا کوئی نہیں ہے جو یہ سب کر سکے۔ ملک میں اربوں کھربوں کے مالک لوگ ہیں۔ آپ کے اپنے لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ اندازہ نہیں کر سکتے۔ منصوبے کا مکمل انحصار چین پر کیا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اپنے سرمایہ کاروں سے کیوں پیسے کی بات نہیں کرتے، آپ لوگوں کو باہر جیسی سہولیات دیں گے تو لوگ باہر نہیں جائیں گے۔

چیف جسٹس نے موجود حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی سرمایہ کاری کے لیے آتا ہے تو اسے تنگ کیا جاتا ہے۔ ہر کوئی اپنا حصہ مانگتا ہے۔

عدالت نے گلشن اقبال میں ریلوے کی زمین پر قبضہ کرنے والوں سے زمین فوری واگزار کرانے اور متاثرین کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے اس حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کے حکم امتناع کو بھی ختم کرتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں یہ لیز دھوکہ دہی سے حاصل کی گئی۔

انتظامیہ کو تجاوزات ہٹانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ (فائل فوٹو)
انتظامیہ کو تجاوزات ہٹانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ (فائل فوٹو)

چینی حکومت کا موقف

کراچی میں تعینات چینی قونصل جنرل لی بیجان نے کہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہدرای میں شامل کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کی بحالی میں تجاوزات سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ جنہیں ہٹانا حکومتِ پاکستان کا کام ہے۔

جمعرات کو کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ تجاوزات ہٹانا اس منصوبے کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان کی وفاقی حکومت، سندھ حکومت اور کراچی کی شہری حکومت مل کر اس حوالے سے کوئی ٹھوس پلان مرتب کر پائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ زمین کا حصول ممکن بنانے اور پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد بھی اسے چلانے کا چیلنج بھی درپیش ہو گا۔ اس لیے اس منصوبے پر جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

سرکلر ریلوے منصوبہ کیا ہے؟

ماضی میں سرکلر ریلوے کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کا موثر ذریعہ تھا جس کے ذریعے روزانہ ہزاروں مسافر اپنی منزل مقصود پر پہنچتے تھے۔ لیکن عدم توجہی کے باعث سرکلر ریلوے 1999 میں بند ہو گئی۔

اس دوران اس کا 43 کلومیٹر طویل ٹریک تجاوزات کی نذر ہو گیا اور کئی مقامات پر تو ریلوے ٹریک کا نام و نشان تک ہی مٹ گیا۔ سرکلر ریلوے اسٹیشنز نشے کے عادی افراد کا مسکن اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں میں تبدیل ہو گئے۔

آبادی میں مسلسل اضافے کے نتیجے میں جنم لینے والے ٹریفک مسائل کے حل کے لیے انتظامیہ نے 2006 میں اسے بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میں جاپانی حکومت کے ایک ادارے 'جاپان انٹرنیشل کوآپریشن ایجنسی' کے تعاون سے سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے مفصل رپورٹ مرتب کی گئی۔

اس کا مقصد سرکلر ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کرنا تھا۔ اس منصوبے کے تحت 43 کلو میٹر ریلوے لائن پر تجاوزات کا خاتمہ، وہاں آباد افراد کی متبادل جگہوں پر منتقلی اور جدید ترین ٹرین سسٹم متعارف کرانا تھا۔

ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ کراچی کی ٹرانسپورٹ کے لیے بہت اہم ہے۔ (فائل فوٹو)
ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ کراچی کی ٹرانسپورٹ کے لیے بہت اہم ہے۔ (فائل فوٹو)

منصوبے کے تحت سرکلر ریلوے کی ہر ٹرین چھ منٹ بعد 1391 مسافروں کے ساتھ روانہ ہو گی اور روزانہ چھ لاکھ سے زیادہ افراد کو سفر کی سہولت مہیا کرے گی۔

اس منصوبے کی لاگت کے تخمینے میں وقت گزرنے کے ساتھ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اور اب اس کا تخمینہ دو ارب امریکی ڈالر تک جا پہنچا ہے۔

دو سال قبل سرکلر ریلوے کے منصوبے کو چینی حکومت کے تعاون سے مکمل کرنے کے لیے اسے پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل کر دیا گیا ہے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ منصوبے کی شرائط کیا ہیں۔ اور اس پر کام کا آغاز کب ہو گا۔ لیکن یہ منصوبہ کراچی کے ٹرانسپورٹ سسٹم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG