پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں مختلف مذہبی جماعتوں کی جانب سے آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر 'حیا مارچ' کا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خواتین کی مختلف تنظیموں نے ملک کے بڑے شہروں میں 'عورت مارچ' کا اہتمام کر رکھا ہے۔ اور گزشتہ سال ہونے والے مارچ میں لگائے جانے والے بعض نعروں پر اس سال بھی بحث جاری ہے۔
جمعے کو اسلام آباد کی ایک مسجد میں سات مختلف مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے علما کا اجلاس ہوا۔ جس کے بعد پریس کانفرنس سے اہلسنت والجماعت کے پیرعزیز الرحمان نے کہا کہ ہم حقوق کے مخالف نہیں ہیں، لیکن بے حیائی کے خلاف ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ 'میرا جسم میری مرضی' کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ ہم عورتوں کے حقوق کے علمبردار ہیں، لیکن وہ حقوق جو اسلام نے عورت کو دیے ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ عورت مارچ کی منتظمین چاہتی ہیں کہ نکاح ختم ہو جائے اور مغربی روایات یہاں بھی رائج ہوں۔
پیر عزیزالرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے ہم بے حیائی نہیں پھیلنے دیں گے۔ اس مقصد کے لیے آٹھ مارچ کو اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر دوپہر دو بجے پرامن 'حیا مارچ' کیا جائے گا۔
جمعیت اہل حدیث کے مرکزی رہنما حافظ مقصود نے کہا کہ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ عورت مارچ پر پابندی لگائی جائے۔ پتا لگایا جائے کہ ایسے مارچ کا اہتمام کرنے والی خواتین کو کون سے ادارے فنڈنگ دیتے ہیں۔
عورت مارچ کے منتظمین کیا کہتے ہیں؟
اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر آٹھ مارچ کو خواتین نے عورت مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ علما کی جانب سے حیا مارچ کے اعلان پر عوامی ورکرز پارٹی کی عصمت شاہجہاں نے کہا کہ افغان جہاد ختم ہونے کے بعد مذہبی جماعتوں کے پاس اپنی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ لہذٰا وہ ایسے اقدامات کے ذریعے عوام کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عصمت شاہجہاں نے بتایا کہ پاکستانی عوام نے ایسے عناصر کو پارلیمنٹ سے بھی رُخصت کر دیا ہے۔ جس کے بعد وہ عورت مارچ جیسے غیر متنازع معاملات کو بھی متنازع بنانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان لوگوں نے حیا مارچ کا اعلان کیا ہے تو یہ ان کا حق ہے۔ وہ جو چاہیں وہ کر سکتے ہیں ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن انتظامیہ کو اس حوالے سے سیکیورٹی کے انتظامات کرنے چاہئیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 'عورت مارچ' کو رکوانے کے خلاف دائر کی گئی اسلام آباد کے آٹھ شہریوں کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دیا۔
درخواست گزاروں نے ایک روز قبل ہی پاکستانی آئین کی مختلف شقوں اور مذہب کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں 'عورت مارچ' رکوانے کی درخواست دائر کی تھی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ توقع ہے کہ عورت مارچ کے شرکا شائستگی برقرار رکھتے ہوئے آئینی حق استعمال کریں گے۔
عدالت نے آٹھ صفحات پر مشتمل فیصلے میں مزید لکھا کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔ لہذٰا عورت مارچ کے شرکا ان کے ارادوں پر شک کرنے والوں کو اپنے عمل سے غلط ثابت کریں۔