کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پنجاب میں صوبائی حکومت لاک ڈاؤن کر چکی ہے۔ لاک ڈاؤن سے شہریوں کے گھر سے نکلنے کی شرح کم ہو گئی ہے۔ جس کے باعث ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو اپنے فرائض انجام دینے میں قدرے آسانی ہو گئی ہے۔
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں لاک ڈاؤن کے دوران سڑکوں پر ٹریفک معمول کی نسبت بہت کم ہے جب کہ شہر تمام کاروباری مراکز بند ہیں۔
شاہراہوں پر ٹریفک کم ہونے کے باعث ٹریفک وارڈنز کی ڈیوٹی بھی قدرے آسان ہو گئی ہے۔ شہر کی مرکزی شاہراہ مال روڈ (شاہراہ قائداعظم) کے ریگل چوک پر ڈیوٹی پر مامور ٹریفک وارڈن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لاک ڈاؤن کے باعث شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کا بہاؤ معمول سے کم ہے لیکن جو لوگ کسی بھی ضروری کام کی وجہ سے گھر سے نکل رہے ہیں وہ ٹریفک قوانین کی پابندی نہیں کر رہے۔
ٹریفک اہلکار کے مطابق سڑکوں پر ٹریفک کا بہاؤ کم ہونے کے باعث چالان کی شرح کم ہو گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر موٹر سائیکل سوار اور رکشہ ڈرائیورز خالی سڑکیں دیکھ کر زیادہ تیز رفتاری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جس کے باعث ہم اُن کے چلان کر رہے ہیں۔ جب کسی سے پوچھتے ہیں کہ وہ گھر سے باہر کیوں نکلے ہیں تو اُن کے پاس خاطر خواہ جواب بھی نہیں ہوتا۔
مال رورڈ پر ہی چیئرنگ کراس (فیصل چوک) پر ڈیوٹی پر تعینات ایک اور ٹریفک پولیس اہلکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چیف ٹریفک وارڈن کے احکامات ہیں کہ لاک ڈاؤن کی صورت حال میں قوانین میں تھوڑی نرمی برتی جائے۔ لوگوں پر کم سے کم جرمانے عائد کیے جائیں۔
ٹریفک پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ یہ شہر کی اہم شاہراہ اور مرکزی چوک ہے جہاں تیز رفتاری اور دیگر خلاف ورزیوں پر وہ اور دیگر اہلکار زیادہ تر نرمی برت رہے ہیں جب کہ زبانی تنبیہ پر ہی شہریوں کو چھوڑا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عام دنوں میں بغیر ہیلمٹ پہنے اِس چوک سے گزرنے والے موٹر سائیکل سواروں کو جرمانہ کیا جاتا ہے لیکن اب بہت سے لوگ بغیر ہیلمٹ کے موٹرسائیکل چلا رہے ہیں اور ہم اُن کے ساتھ نرمی سے پیش آ رہے ہیں۔
لاہور ہی کی دوسری اہم شاہراہ فیروز پور روڈ پر تعینات ٹریفک پولیس اہلکار نے بتایا کہ محکمے نے لاک ڈاؤن کے دنوں میں ڈیوٹیاں خاصی نرم کر دی ہیں۔ پہلے اُن کے محکمے کے 15 فی صد اہلکاروں کو چھٹیوں پر بھیجا جاتا تھا اب 30 فی صد اہلکاروں کے ساتھ شہر کی ٹریفک کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔
اہلکار کے مطابق ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر چالان میں بھی 15 فی صد کمی کر دی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم تو لاک ڈاؤن کے دنوں میں اُمید کر رہے تھے کہ سڑکوں پر کوئی نہیں ہو گا، لیکن آج صبح سے بہت سے افراد کو غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نکلتے دیکھ رہے ہیں۔ شہری کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔
میڈیا ہاؤسز میں کام کے اوقات میں نرمی
پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے اداروں سے منسلک تین صحافیوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہونے کے بعد بہت سے میڈیا ہاؤسز نے اسٹاف کے لیے آسانیاں پیدا کیں ہیں۔ اُن کے کام کے اوقات کو کم کر دیا گیا ہے جب کہ دفتری اوقات کے دوران اںہیں احتیاطی تدابیر اپنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے ایک نجی نیوز چینل 'جی این این' کے کنٹرولر نیوز انعام اللہ کہتے ہیں کہ اُن کا کام ایسا ہے کہ دفتر بند نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ آج کل کے دور میں ہر شخص خود کو باخبر رکھنا چاہتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انعام اللہ نے بتایا کہ کرونا وائرس کے پیش نظر ہر شخص تازہ ترین صورت حال جاننا چاہتا ہے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت کرونا وائرس کے انسداد کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے اور لاک ڈاؤن کے دنوں میں تو شہری زیادہ سے زیادہ معلومات کا حصول چاہتے ہیں۔
ان کے بقول ہم نے اپنے نیوز روم اور رپورٹنگ اسٹاف کو نصف کر دیا ہے۔ ہر شخص کو ہفتے میں تین چھٹیاں دی گئیں ہیں جب کہ ملک بھر میں ڈی ایس این جی گاڑیوں کو بھی کم کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ ڈی ایس این جی گاڑیوں پر لگے آلات کی مدد سے ٹی وی چینلز براہ راست نشریات پیش کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹاف کو واضح ہدایات کی گئیں ہیں کہ دفتر میں داخلے کے وقت اور وقتاً فوقتاً اپنے ہاتھ دھویں، کھانستے اور چھینکتے وقت اپنے چہرے کو ڈھانپ لیں۔ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھ کر کام کریں۔ مختلف جگہوں پر لگائے گئے ہینڈ سینیٹائزرز کا استعمال کریں۔
پاکستان کے ایک خبر رساں ادارے 'ایکسپریس نیوز' کے لاہور کے بیورو چیف محمد الیاس کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کے دنوں میں زیادہ تر نیوز روم اور رپورٹنگ اسٹاف کو گھروں سے کام کرنے کا کہہ دیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد الیاس نے بتایا کہ ایکسپریس نیوز لاہور بیورو میں ٹی وی کے 16 رپورٹرز ہیں۔ جن میں سے دو صبح کے وقت اور دو شام کے وقت کام کرتے ہیں۔ باقی سب کو چھٹیاں دے دی گئیں ہیں۔اسی طرح کیمرا پرسنز اور نان لینیر ایڈیٹرز کو بھی رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ ہونے والی ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے محمد الیاس نے بتایا کہ اُنہوں نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو تجویز دی ہے کہ میڈیا ہاؤسز میں کام کرنے والے تمام صحافیوں کے ٹیسٹ کرائے جائیں۔
ان کے بقول کرونا کا ٹیسٹ نجی لیبارٹریز میں 9000 روپے میں ہو رہا ہے۔ ہر صحافی کہاں سے اتنا مہنگا ٹیسٹ برداشت کر سکتا ہے۔ ہمارا کام ایسا ہے کہ دفاتر بند نہیں کر سکتے۔
محمد الیاس نے بتایا کہ حکومت نے اشتہارات تو بند کر دیے ہیں کیا پتا کرونا کے باعث میڈیا ہاؤسز کو بھی بند کر دے۔
ان کے بقول ہمارے بیورو میں کرونا وائرس کے باعث ایک رپورٹر ایک دن کام کرتا ہے اور باقی ہفتہ اُس کو چھٹی دی گئی ہے۔ تمام اسٹاف کو ماسک اور ہینڈ سینیٹائزر فراہم کر دیے گئے ہیں جب کہ ڈی ایس این جی گاڑیوں میں بھی صابن اور سینیٹائزر رکھ دیے ہیں۔
'ایک روپے کی آمدن نہیں ہو رہی'
کورونا وائرس کے پیش نظر شہر کے تمام چھوٹے بڑے کاروباری مراکز بند ہیں۔ لاہور کی بڑی الیکٹرانک مارکیٹ عابد مارکیٹ اِس وقت مکمل طور پر بند ہے۔ لیکن مارکیٹ کے باہر کچھ منی ٹرک اور پک اَپ والے اپنی مال بردار گاڑیوں میں بیٹھ کر مارکیٹ کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایک منی ٹرک ڈرائیور جہانگیر خان نے بتایا کہ وہ جہلم شہر کا رہائشی ہے اور یہاں منی ٹرک چلاتا ہے لیکن کرونا وائرس کے باعث بازار بند ہیں اور ایک روپے کی آمدن نہیں ہو رہی۔
جہانگیر خان کے مطابق اُسے اِس بات کی فکر ستائے جا رہی ہے کہ اگر کرونا کے باعث بازار بند کرنے کا سلسلہ طول پکڑ گیا تو گھر کا چولہا کیسے جلے گا کیوں کہ سرکار نے ابھی تک اِس سلسلے میں کوئی اقدامات نہیں اُٹھائے۔
انہوں نے کہا کہ آج کل شادیوں کا سیزن ہوتا ہے اور اچھی خاصی دہاڑی بن جاتی ہے۔ لوگ شادیوں کا سامان خریدتے ہیں تو کرائے کی مد میں روزی مل جاتی ہے۔ اب تو سارے بازار، سب کچھ بند ہے۔ دو دِن سے یہاں آ رہا ہوں کہ شاید کوئی کام مل جائے لیکن خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑ رہا ہے۔