ایک ایسے وقت میں کہ جب زیادہ تر لوگ گھروں سے ہی دفتری کام کرنے پر مجبور ہیں۔ بہت سے افراد ایسے پیشوں سے بھی منسلک ہیں جو کچھ عرصہ پہلے تک گھر سے کام کرنے کا تصور نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن کرونا وائرس نے شہروں اور ملکوں کی حالت کچھ ایسے بدلی ہے کہ میڈیا اور صحافت سے جڑے افراد بھی پہلی بار دفتروں اور فیلڈ سے دور رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سلمانی قاضی بھی ایک ایسے ہی صحافی ہیں جو گزشتہ 22 سال سے کیمرے کی آنکھ سے دنیا کو دیکھ بھی رہے ہیں اور لوگوں کو بھی دکھا رہے ہیں۔ کام کرنے کا پورا ماحول بدلنے کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ افغان جنگ سے لے کر دہشت گردی اور بم دھماکوں میں مرنے والوں تک انہوں نے بے شمار کہانیاں اپنے کیمرے سے فلم بند کیں۔ لیکن موجودہ صورتِ حال کا موازنہ کسی اور منظر سے نہیں کیا جا سکتا۔
سلمان قاضی کے بقول جو ماحول اس وقت ہے، ایسا ماحول کبھی نہیں دیکھا۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فیلڈ رپورٹر ہو یا کیمرہ مین، ان کے لیے اب بھی اُن جگہوں پر جانا ناگزیر ہے جہاں کوئی دوسرا شخص نہیں جانا چاہتا۔
سلمان قاضی کا کہنا تھا کہ ایسی صورتِ حال میں صحافیوں کی صحت کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ ان کے بقول جب سے ایک میڈیا ادارے میں کرونا وائرس سے ایک صحافی کے متاثر ہونے کا واقعہ ہوا ہے، تب سے میڈیا ہاؤسز نے اپنے کام کے اوقات بھی بدلے ہیں اور زیادہ لوگوں کو چھٹی دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔
سلمان قاضی نے کہا کہ آج بھی شاید ہی کوئی کیمرہ مین ایسا ملے جو کام سے انکار کرے گا۔ اس کی ایک وجہ جہاں ان کے سخت حالات میں کام کرنے کے سابقہ تجربات ہیں، وہیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے کا ڈر بھی ہے۔
دوسری جانب ایسے صحافی بھی ہیں جو گھر سے ہی اپنے دفتری امور نمٹا رہے ہیں۔ ان کے لیے بھی یہ ایک نیا تجربہ ہے۔ نیوز اور ویب پورٹل 'دی کرنٹ' کے پولیٹیکل ایڈیٹر عبداللہ ظفر بھی ان میں سے ایک ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عبداللہ ظفر نے کہا کہ گھر سے کام کرنا اتنا برا تجربہ نہیں، جتنا وہ ابتدائی طور پر سمجھ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت رپورٹرز واقعی مشکل پوزیشن میں ہیں۔
ان کے بقول رپورٹرز کی دوسری مشکل یہ ہے کہ اب ان کے پاس زیادہ ایونٹ ہی موجود نہیں ہیں جنہیں وہ رپورٹ کر سکیں۔ موجودہ صورتِ حال میں تقاریب منعقد نہیں ہو رہیں۔ ایسے میں صرف کرونا وائرس سے متعلق خبریں ہی موجود ہیں جن کے حصول کے لیے واٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر زیادہ انحصار کیا جا رہا ہے۔
عبداللہ ظفر نے کہا کہ اگرچہ ان کا ادارہ دیگر کئی میڈیا ہاؤسز کی طرح کوشش کر رہا ہے کہ ایسی اسٹوریز نہ کی جائیں جن میں زیادہ باہر رہنا پڑے۔ لیکن ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود خبروں کے لیے گھر سے ایک آدھ بار باہر نکلنا ہی پڑتا ہے۔
لیکن وہ تمام سیاسی پروگرام اور ٹی وی ٹاک شوز جو ہر شام مختلف ٹی وی چینلز پر نشر ہوتے ہیں ان کا حصہ رہنے والے افراد کیسے کام کر رہے ہیں؟ اس بارے میں اینکر اور صحافی منیب فاروق کہتے ہیں کہ ٹی وی کا شو اسٹوڈیو سے کرنا مجبوری ہے۔
ایسے حالات میں جب تمام لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کا مشورہ ہر ٹی وی پروگرام میں سنائی دیتا ہے۔ لیکن ٹی وی اینکر اور دیگر عملے کو اس کی ریکارڈنگ کے لیے اسٹوڈیو آنا پڑتا ہے۔ ان پروگرامز کی ریکارڈنگ کو منیب مجبوری قرار دیتے ہیں۔
منیب فاروق کا کہنا ہے کہ پروگرام کی ریکارڈنگ ایک انفرادی عمل نہیں ہے۔ اس میں بہت سے ٹیکنیکل اسٹاف کی معاونت بھی چاہیے ہوتی ہے جو گھر پر ملنا ممکن نہیں۔ دوسری جانب عوام تک بدلتے حالات پہنچانا بطور صحافی ان کی ذمہ داری ہے۔
منیب فاروق کے بقول بدلتے حالات میں میڈیا ہاؤسز میں صفائی کے انتظامات پر بھی کافی توجہ دی جا رہی ہے۔
عبداللہ ظفر سمجھتے ہیں کہ مکمل طور پر گھر سے کام کا یہ پہلا تجربہ ہے۔ لیکن اس سے پوری میڈیا انڈسٹری کے طریقہ کار میں ایک واضح بدلاؤ دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن گھر سے کام کرنا اب بھی صرف ایڈیٹرز اور پروڈکشن ٹیمز تک محدود ہے۔
دوسری جانب سلمان قاضی کہتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں وہ احتیاط سے تو کام لے سکتے ہیں مگر باہر جا کر کام کرنا بند نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ ان کا کام گھر اور دفتر کی چار دیواری سے باہر ہی شروع ہوتا ہے۔