رسائی کے لنکس

کرونا وائرس: پاکستان ميں مقيم افغان مہاجرين کے متاثر ہونے کا خدشہ


پاکستان میں 14 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں جب کہ لاتعداد ایسے افغان بھی یہاں مقیم ہیں جو نادرا کے پاس رجسٹر نہیں ہیں۔
پاکستان میں 14 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں جب کہ لاتعداد ایسے افغان بھی یہاں مقیم ہیں جو نادرا کے پاس رجسٹر نہیں ہیں۔

کرونا وائرس کے باعث پاکستان ميں مقيم 14 لاکھ سے زائد افغان مہاجرين اور باشندوں کے متاثر ہونے کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجريں (يو اين ايچ سی آر) کے مطابق پاکستان ميں مقيم بيشتر افغان مہاجرين کچی آباديوں ميں رہتے ہيں۔

حکومت پاکستان طورخم اور چمن بارڈر کو آمد رفت کے لیے بند کر چکی ہے۔

پاکستان ميں کرونا وائرس کے تصديق شدہ کيسز کی تعداد 2200 سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ 31 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔

پاکستان ميں مقیم افغان مہاجرين بھی کرونا وائرس کے ممکنہ پھيلاؤ سے پريشان ہيں۔ ان کے مطابق ابھی تک تو حالات قابو ميں ہيں تاہم وبائی شکل کی صورت ميں کيمپس کے حالات بگڑ سکتے ہیں۔

پشاور شہر کے قریب افغان مہاجرین کے کيمپ کبابيان ميں مقيم 54 سالہ محمد ضمير 1979 میں افغانستان پر سويت يونين کے حملے کے بعد خاندان کے ہمراہ پاکستان آئے تھے۔ تب سے اب تک وہ اپنے آبائی علاقے ننگر ہار نہيں گئے۔ آج وہ اپنے 30 افراد پر مشتمل خاندان کے ساتھ ايک گھر ميں مقيم ہيں۔

کبابیان کیمپ، پشاور
کبابیان کیمپ، پشاور

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ وہ يو اين ايچ سی آر کے تحت چلنے والے ايک اسکول ميں پرنسيپل ہيں۔

ان کے مطابق کبابيان کيمپ میں دس ہزار افراد مقيم ہيں یہ کیمپ گنجان آباد ہے جب کہ یہاں مکان کچے ہيں۔

انہوں نے مزيد بتايا کہ کرونا وائرس کے پھيلاؤ کے پيش نظر کيمپ کے اسکولوں ميں بھی چھٹياں ہيں۔ کيمپ ميں ايک چھوٹا سے بنيادی مرکز صحت ہے۔ جہاں سہولتيں بہت کم ہيں اس لیے کيمپ ميں مقيم تمام افراد شہر کے بڑے اسپتالوں میں جانے کو ترجيح ديتے ہيں۔

محمد ضمير کے مطابق زيادہ تر مہاجرين روزگار کے سلسلے ميں کيمپ سے باہر جاتے ہيں تاکہ اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں ليکن حاليہ لاک ڈاون کی وجہ سے سارا شہر بند ہے اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ يو اين ايچ سی آر کی جانب سے تاحال کوئی امداد نہيں ملی۔

ضمیر 1979 میں پاکستان آئے تھے۔ اس کے بعد وہ افغانستان نہیں گئے۔
ضمیر 1979 میں پاکستان آئے تھے۔ اس کے بعد وہ افغانستان نہیں گئے۔

صديق احمد خان وزارت رياستی و سرحدی امور کے تحت پشاور کے ڈسٹرکٹ ايڈمنسٹريٹر ہیں۔ ان کے مطابق وہ صورت حال سے آگاہ ہيں اور اس بابت يو اين ايچ سی آر سے مکمل رابطے ميں ہيں۔

يار رہے کہ پاکستان میں اس وقت 14 لاکھ افغان مہاجرين رجسٹرڈ ہيں۔ اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد ميں غير رجسٹرڈ مہاجرين پاکستان کے مختلف شہروں ميں مقيم ہيں۔

صوبہ خيبر پختونخوا ميں افغان مہاجرين 44 کيمپس ميں آباد ہيں۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے صدیق احمد خان نے بتايا کہ ان کا عملہ تمام کيمپوں ميں تعينات ہے جب کہ وہ حق دار اور نادار افراد کے حوالے سے فہرستیں ترتیب دے رہے ہیں۔

23 سالہ عزيز شنواری رکشہ چلاتے ہيں۔ ان کے مطابق گزشتہ ايک ہفتے سے انہوں نے کچھ بھی نہيں کمايا جب کہ رکشہ گھر پر ہی کھڑا ہے کيونکہ باہر نکالنے کی صورت ميں پوليس کے تشدد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کبابیان کیمپ میں دس ہزار کے قریب افراد آباد ہیں۔
کبابیان کیمپ میں دس ہزار کے قریب افراد آباد ہیں۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزيد واضح کيا کہ انہيں اپنا کنبے کی کفالت کی شديد فکر لاحق ہے۔ تاہم وہ کرونا وائرس کا شکار ہونے کے خوف میں بھی مبتلا ہیں۔

عزیز شنواری کے مطابق ان کی جمع پونجی تیزی سے ختم ہو رہی ہے جب کہ وہ افغانستان واپس اس لیے نہيں جا سکتے کيونکہ وہاں دہشت گردی کے باعث زندگی ہر وقت خطرے سے دوچار رہتی ہے۔

پشاور شہر سے ملحقہ شمشتو مہاجر کيمپ کے رہائشی محمد قاسم کے مطابق اگرچہ کرونا وائرس کا خوف لوگوں ميں ہے ليکن ابھی تک کسی بھی فرد ميں اس کی علامات سامنے نہيں آئيں۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے محمد قاسم نے واضح کيا کہ مہاجرين نے بہت سختياں برداشت کی ہيں۔ یہ لوگ جسمانی طور پر بہت سخت جان ہيں۔

وہ سمجھتے ہيں کہ ان کی قوت مدافعت انہيں مہلک وائرس سے بچاؤ ميں مددگار ثابت ہوگی۔ اسی وجہ سے لوگ زيادہ پريشان نہيں ہيں۔

صوبہ خيبر پختونخوا سے افغانستان کے ساتھ نماياں تجارت طورخم بارڈر کے تحت ہوتی ہے۔ تاہم کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحد بند کر دی ہے۔

ڈپٹی کمشنر خیبر محمود اسلم وزیر کے مطابق حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر خیبر محمود اسلم وزیر کے مطابق حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے ضلع خيبر کے ڈپٹی کمشنر محمود اسلم وزير نے بتايا کہ پاک افغان شاہراہ پر جمرود اور لنڈی کوتل کے مقام پر انتظاميہ 1200 افراد کو قرنطینہ میں رکھنے کی سہولت بنا رہی ہے۔

اس قرنطینہ سینٹر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سرحد کی بندش سے افغانستان میں کئی پاکستان پھنس گئے ہیں۔ انہیں واپسی پر ان سينٹرز ميں قرنطینہ میں رکھا جائے گا تاکہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

XS
SM
MD
LG