پاکستان کے ممتاز معاشی ماہرین نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا سے ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ عالمی کساد بازاری کے نتیجے میں سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر کم ہوں گی۔ اس سال قرضوں کی ادائیگی میں چھوٹ مل رہی ہے، لیکن اگلے سال قرضوں کے پہاڑ کھڑے ہوں گے۔
قیصر بنگالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے لیے ہت مشکل وقت ہے۔ حکومت نے رواں مالی سال کے لیے آمدنی کے جو اہداف رکھے تھے، کاروباروں کے بند ہونے اور بیروزگاری بڑھنے سے اس کا پچاس فیصد بھی حاصل ہو جائے تو بڑی کامیابی ہو گی۔
انھوں نے کہا کہ عالمی وبا سے پوری دنیا کی طرح پاکستان بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ برآمدات رک گئى ہیں، برآمدی صنعتوں کے پرانے آرڈرز منسوخ ہو رہے ہیں یا ملتوی کر دیے گئے ہیں اور نئے آرڈرز ملنا بند ہو گئے ہیں۔ اس وجہ سے پاکستان کا مالی خسارہ اس سال بہت زیادہ ہو سکتا ہے، جس کا فی الحال اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ریاست کا سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم پر انحصار بہت زیادہ ہے جو کم ہوں گی کیونکہ عالمی کساد بازاری کے نتیجے میں پوری دنیا میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔
آئى ایم ایف کے حالیہ اندازوں کے مطابق دنیا بھر کی معیشتیں اس سال 3 فیصد تک سکڑ سکتی ہیں۔ ورلڈ بینک کے پاکستان میں کنٹری ڈائریکٹر الانگو پاچا موتو نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ پاکستان کی معیشت 2 اعشاریہ 2 فیصد تک سکڑ سکتی ہے۔
قیصر بنگالی نے اس بارے میں کہا کہ انتہائی غریب آبادی کو احساس پروگرام کچھ حد تک ضرور مدد دے گا، لیکن حکومت کے لیے اس کو طویل عرصے تک جاری رکھنا مشکل ہو گا۔ جی ٹوینٹی ممالک کے طرف سے قرضوں کی ادائىگیوں میں وقتی ریلیف سے یہ سال تو گزر جائے گا لیکن اس کے بعد پاکستان پر بیرونی قرضوں کے پہاڑ کھڑے ہوں گے۔ گزشتہ مالی سال میں بیرونی قرضوں کا حجم 107 ارب ڈالرز تھا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ ملک کے سبھی متاثرہ طبقوں کی مدد کرسکے۔ کنسٹرکشن پیکج یا ایکسپورٹ پیکج سے کم از کم اس سال کوئى فائدہ نہیں ہو گا۔
واضح رہے کہ جی ٹوینٹی ممالک نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ کرونا وائرس سے معاشی نقصانات کے پیش نظر وہ 76 ترقی پذیر ملکوں سے اس سال قرضوں کی اقساط وصول نہیں کریں گے تاکہ وہ اس وبا سے نمٹ سکیں۔ اس سے پہلے آئى ایم ایف عالمی معیشتوں کے لیے ایک کھرب ڈالر کے اضافی قرضوں کا اعلان کر چکا ہے۔
سابق وفاقی وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو جی ٹوینٹی کی سہولت کا تھوڑا سا ہی فائدہ ہو گا کیونکہ پاکستان کے بیرونی قرضوں میں ان ممالک کا حصہ 20 فیصد ہے۔ 50 فیصد سے زیادہ قرضہ ملٹی لیٹرل یعنی عالمی مالیاتی اداروں کا ہے۔ اگر قرضوں کی معطلی تین سال یا اس سے زیادہ بڑھائى جا سکتی ہے تو اس دوران پاکستان کی معیشت کو کسی حد تک اپنے پیروں پر کھڑا کیا جا سکے گا۔
اسٹیٹ بینک کی طرف سے شرح سود کو 9 فیصد کرنے کے فیصلے پر سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ملک سنگین مالی پریشانیوں سے گزر رہا ہے اس لیے شرح سود کو مزید کم کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ کمی سے مقامی قرضوں کی ادائىگی میں 1200 ارب روپے کی کمی آئے گی۔ مالی خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی ساڑھے 9 فیصد سے بھی اوپر جا سکتا ہے۔
تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی سے کیا پاکستان کو فائدہ ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں سرتاج عزیز نے کہا کہ تیل کی کھپت میں بہت زیادہ کمی ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کو بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو فکسڈ چارجز دینے پڑتے ہیں اس لیے کوئى خاص فائدہ نہیں ہو گا۔