سندھ بار کونسل نے سپریم کورٹ میں سنیارٹی کے اصولوں کے برخلاف ججز کو ترقی دینے پرشدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اعتراضات اٹھائے ہیں۔
سندھ بار کونسل کا موقف ہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ کے جج تعینات کیے جانے والے جسٹس مظاہر علی نقوی کو سپریم کورٹ کا جج بنانے سے عدالت عظمیٰ میں ججز کی تعیناتی کے لیے سنیارٹی کے اصول کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔
سندھ بار کونسل کے وائس چیئرمین سید حیدر امام رضوی نے ایک خط میں کہا ہے کہ آخری پانچ ججز جنہیں سپریم کورٹ میں ترقی دی گئی وہ اپنی ہائی کورٹس میں بھی سب سے سینئر نہیں تھے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس منیب اختر کو جو کہ سندھ ہائی کورٹ میں سنیارٹی میں چوتھے نمبر پر تھے، سپریم کورٹ میں جج مقرر کیا گیا۔ اسی طرح چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دور میں بھی لاہور ہائی کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس قاضی امین احمد کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا جب کہ وہ سنیارٹی میں 26ویں نمبر پر تھے۔
خط میں مزید کہا گیا کہ اسی طرح جسٹس امین الدین احمد جو کہ لاہور ہائی کورٹ میں سنیارٹی میں پانچویں نمبر پر تھے، انہیں بھی سپریم کورٹ کاجج مقرر کر دیا گیا جب کہ لاہور ہائی کورٹ میں سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس مظاہر علی نقوی کو سپریم کورٹ میں جج مقرر کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کو مارچ 2020 میں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا جا چکا ہے۔
سندھ بار کونسل کی جانب سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کو لکھے گئے خط میں 1998 میں سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ملک اسد علی کیس میں فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کیس میں عدالت عظمیٰ نے قرار دیا تھا کہ عدالت کا سینئر ترین جج ہی چیف جسٹس بننے کا جائز طور پر حق دار سمجھا جائے گا۔ حالانکہ اس اہم معاملے پر اس وقت آئین میں کوئی رائے نہیں دی گئی تھی۔
خط میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سنیارٹی کے اصول کو آئین میں بھی اہمیت دی گئی ہے حتٰی کہ 18ویں آئینی ترمیم اور بعض عدالتی احکامات کے باوجود بھی اس بات پر مجموعی اتفاق پایا جاتا ہے کہ آئینی اعتبار سے اس اصول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور یہی اصول سپریم کورٹ میں تعیناتیوں میں بھی اپنایا جائے گا۔
وائس چئیرمین سندھ بار کونسل سید حیدر امام رضوی کے مطابق ملک اسد علی کیس میں سنیارٹی کے اصول کو اپنانے کے لیے منطق کو مفصل طریقے سے بیان کیا جا چکا ہے اور اسے نہ اپنانے سے پیش آنے والی مشکلات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ اور یہ اصول نہ صرف عدالتی بلکہ ہر قسم کے سروس اسٹرکچر پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے چند سال قبل آوٹ آف ٹرن پروموشنز کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں سول سروس سے تعلق رکھنے والے افراد کی ترقیوں کو کالعدم قرار دیا تھا۔
خط میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ یہ ترقیاں اگر غیر قانونی ہیں تو عدلیہ کو کیوں اس سے ماورا سمجھا جاتا ہے اور اسے کیوں میرٹ کے نام سے تشبیہ دی جاتی ہے؟
سندھ بار کونسل کے مطابق اس طریقہ کار کو نہ اپنانے سے ترقی دیے جانے والے ججز کی اہلیت اور عہدے کے لیے ان کی مناسبت پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔ اسی طرح اگر ججز کی تعیناتی کرنے والا جوڈیشل کمیشن ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج کو سپریم کورٹ میں تعیناتی کے قابل نہیں سمجھتا تو کیا وکلا اور عام عوام اس صوبے کے چیف جسٹس کی عزت اور اس کی صلاحیت پر اعتماد برقرار رکھ پائیں گے۔
بار نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا ایسے ججز کو عہدے سے ہٹانا یا جبری طور پر ریٹائر نہیں کر دینا چایے؟
اسی طرح ہائی کورٹ کے ایک جونیئر جج کی صلاحیتوں پر اعتماد کا اظہار اور سینئر جج پر عدم اعتماد ججز کے اندر ایک دوسرے کے خلاف غلط سوچ کو جنم دے گی جس سے دشمنی کے جذبات پیدا ہوں گے اور ان کا اظہار بھی کیا جائے گا۔
بار کونسل کا کہنا ہے کہ اطلاع کے مطابق اسی طرح کے جذبات اور غصہ حال ہی میں سپریم کورٹ میں ہونے والی ایک تعیناتی پر ہائی کورٹ کے ایک چیف جسٹس کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کو لکھے گئے خط میں سامنے بھی آ چکا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس سے عدلیہ کے ادارے کا وقار اور اندرونی ہم آہنگی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
سندھ بار کونسل کا کہنا ہے کہ ججز کی تعیناتی میں سنیارٹی لِسٹ کو نظر انداز کرنے کے عمل سے سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے ججز کی لابنگ کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ چاہے وہ لابنگ حکومت، پارلیمنٹیرینز یا جوڈیشل کمیشن کے کسی ممبر کی جانب سے ہو۔ بہر حال اس سے عدلیہ کی آزادی کے نظریے پر حرف آئے گا۔ اسی طرح اس طریقہ کار کو نہ اپنانے سے یہ تاثر جائے گا کہ ججز کی تقرریوں میں میرٹ کے بجائے صوابدیدی اختیارات کا عمل دخل زیادہ ہے۔
بار کونسل کے مطابق میرٹ اور اہلیت ہی اگر سپریم کورٹ میں تعیناتیوں کا واحد معیار ہے جب کہ عدالتی تجربہ اور سنیارٹی کم اہمیت کا حامل ہے تو کیا وجہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن نے آج تک کسی سینئرترین وکیل جو میرٹ اور اہلیت کے معیار پر پورا اترتا ہو، کو سپریم کورٹ میں براہ راست جج مقرر کرنے کے لیے نامزد نہیں کیا؟
جسٹس مظاہر علی نقوی کی تعیناتی پر سوالات
سندھ بار کونسل نے اپنے خط میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی نقوی کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کرنے پر مزید سوالات بھی اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ ان کی تعیناتی پر عام سوالات کے علاوہ بھی کئی اعتراضات ماضی میں سامنے آ چکے ہیں۔
بار کونسل کے مطابق سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 2014 میں ریمارکس دیے تھے کہ جسٹس نقوی نے ایک ملزم کی سزا کو معطل کرنے کی درخواست دو بار رد کی جب کہ تیسری بار سائل کی جانب سے محض وکیل تبدیل کرنے پر ہی اسے منظور کر لیا گیا۔
جب جسٹس مظاہر علی نقوی کی جانب سے ان ریمارکس کو حکم نامے سے ختم کرنے کے لیے نظر ثانی کی درخواست دائر کی گئی تو تین رکنی بینچ جس میں موجودہ چیف جسٹس بھی شامل تھے، انہوں نے اسے بھی ایسی بے ضابطگی قرار دیا جس سے اس فیصلے پر بیرونی دباؤ کا تاثر ابھرتا نظر آ رہا ہو اور کئی لوگوں کو اس فیصلے سے حیرانگی بھی ہوئی۔
بار کونسل کا کہنا ہے کہ ایسا جج جس کے بارے میں سپریم کورٹ ہی کے بینچ نے اس قسم کی آبزرویشن دی ہو، اسے سپریم کورٹ کا جج بنانے کا نہ صرف اہل سمجھا گیا بلکہ اس مقصد کے لیے انہیں دیگر سینئر ججز پر فوقیت بھی دی گئی۔ ایسے جج کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
بار کے مطابق بعض اطلاعات ہیں کہ جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں انکوائری بھی شروع ہوئی تھی لیکن اسے بند کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے ایک جج کے حوالے سے اس قدر سخت ریمارکس کے باوجود انکوائری بند کرنے سے متعلق کوئی بات نہیں بتائی گئی جیسا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کی تحقیقات سے متعلق فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی شائع کیا گیا۔
اسی طرح بار کونسل نے جسٹس مظاہر علی نقوی کا وہ فیصلہ جس میں عدالت نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا، اسے بھی انتہائی متنازع قرار دیا ہے۔
بار کونسل کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اگرچہ ابھی عدالت میں زیر سماعت ہے، لیکن خصوصی عدالت کے فیصلے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے یا اسلام آباد ہائی کورٹ جہاں اس کیس سے متعلق متفرق درخواستوں کو پہلے بھی نمٹایا جا چکا ہے، وہاں جانے کے بجائے لاہور ہائی کورٹ میں کیس دائر کرنے پر اس عدالت کے دائرہ اختیار پر کئی حلقوں میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
بار کونسلز کو ججز تعیناتی پر اعتراض کا کوئی حق نہیں: وکیل پرویز مشرف
خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں دائر اپیل میں سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل چوہدری اظہر صدیق ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ کسی بھی معزز جج کے خلاف اس طرح کے اعتراضات اٹھانا بار کونسل یا وکلا کو زیب نہیں دیتا۔ یہ عدلیہ کی آزادی پر حملے کے مترادف ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ جسٹس مظاہر علی نقوی کا اکیلا فیصلہ نہیں بلکہ لارجر بینچ کا فیصلہ تھا۔ جو آئین اور قانون کے عین مطابق فیصلہ تھا۔
ان کےخیال میں اس پر ان کے خلاف ایسے الزامات عائد نہیں کیے جانے چاہیئیں۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ بار کونسل ججز کی تعیناتی پر سوالات ہی نہیں اٹھا سکتا۔ الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کے تحت یہ اصول طے ہو چکا ہے کہ ججز کی تعیناتی کا اختیار عدلیہ ہی کے پاس ہے کہ کسے سپریم کورٹ میں تعینات کرنا ہے اور کسے نہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ بار کونسلز میں موجود بعض عناصر اس معاملے کو سیاست زدہ کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ججز حلف اٹھا چکے ہیں اور بینچ کاحصہ بن کر مختلف کیسز کی سماعت کر رہے ہیں۔ ایسے وقت میں ان کی اہلیت اور تعیناتی پر سوال اٹھانا واضح کر رہا ہے کہ اس کے پیچھے کسی کا ایجنڈا ہے جس کا مقصد عدلیہ کو بدنام کرنا ہے۔
اُدھر سندھ بار کونسل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں جن حالات میں یہ تعیناتیاں کی گئی ہیں، یہ عدالت کی عزت، وقار اور ساکھ کے لیے بہتر نظر نہیں آتے۔
بار نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات پر غور کیا جائے اور مستقبل میں عدالت عظمیٰ میں ایسی تعیناتیوں سے متعلق بھی ان تحفظات کو دور کیا جائے۔
خط کی کاپی چیف جسٹس سپریم کورٹ کے علاوہ، عدالت کے چار سینئر ترین ججز، وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور پاکستان بار کونسل کے ممبر اور سینئر وکیل اختر حسین کو بھی بھیجی گئی ہیں۔
پاکستان میں ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہے؟
ملک میں 18ویں اور 19ویں آئینی ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 175-اے میں سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار دیا گیا ہے جس میں عدالت عظمی ٰ میں جج تعینات کرنے کے اختیارات کی کنجی سپریم کورٹ ہی کے پاس ہے۔
اس کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم ہے جس میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین ججز، ایک سابق چیف جسٹس جو دو سال کے لیے تعینات ہوگا، اٹارنی جنرل، وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے نامزد ایک سینئر وکیل شامل ہوتے ہیں۔
اسی طرح اس مقصد کے لیے 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی بھی الگ سےقائم کی گئی ہے جس میں چار ارکانِ سینیٹ اور چار ہی قومی اسمبلی کے اراکین شامل ہوں گے اور ان میں سے چار کا تعلق حزب اختلاف کی جماعتوں جب کہ چار کا تعلق حکومت سے ہوگا۔
سپریم کورٹ میں جج کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن جج کی قابلیت اور اس کی پیشہ وارانہ اہلیت دیکھ کر سفارشات مرتب کرکے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے گا۔
پارلیمانی کمیٹی نامزدگی موصول ہونے کے 14 روز کے اندر سادہ اکثریت سے ان ناموں کی منظوری دے گی اور اگر اس دوران یہ فیصلہ نہ ہوسکا تو عدالتی کمیشن کا فیصلہ حتمی تصور ہوگا۔ تاہم اگر پارلیمانی کمیٹی کسی نام کو مسترد کرتی ہے تو تین چوتھائی ممبران کی حمایت کے ساتھ اس نام کو مسترد کرنے کی وجوہات کو بھی بیان کرکے سفارشات وزیر اعظم کو بھیجنی ہوں گی جس پر جوڈیشل کمیشن اس نام کے بجائے کوئی اور نام بھیجے گا۔ جب کہ وہ نام جو پارلیمانی کمیٹی کنفرم کر دے اسے بھی وزیر اعظم کو بھیجا جائے گا جو ان کی تعیناتی کے لیے صدر مملکت کو یہ نام بھیجنے کے پابند ہوں گے۔