پاکستان میں ان دنوں اہم حکومتی عہدوں اور سرکاری اداروں میں کئی حاضر سروس اور سابق فوجی افسران تعینات ہیں جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اہم سرکاری عہدوں پر حاضر اور ریٹائرڈ سروس فوجی افسران کی تعیناتی پر کئی حلقے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور اس معاملے پر سوشل میڈیا پر بھی گاہے بگاہے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔
حال ہی میں وزیرِ اعظم پاکستان کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی جگہ جب لیفٹینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو تعینات کیا گیا تو یہ بحث مزید زور پکڑ گئی۔
بعض تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ فوج کیوں کہ ایک ڈسپلن فورس ہے لہذٰا سابق فوجی افسران کی مہارت سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
البتہ بعض تجزیہ کار اسے سیاسی حکومتوں کی کمزوری قرار دیتے ہیں کہ وہ سول افسران کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے میں ناکام رہی ہیں۔
ناقدین یہ سوال بھی اُٹھا رہے ہیں کہ ماضی میں ایسا صرف فوجی دورِ حکومت میں ہوتا تھا۔ ایک سویلین حکومت کے ہوتے ہوئے ریٹائر فوجی افسران کی اہم عہدوں پر تعیناتیاں کیوں کی جا رہی ہیں؟
کن اہم عہدوں پر سابق فوجی افسران تعینات ہیں؟
پاکستانی کی وفاقی حکومت کے علاوہ ملک کی چاروں صوبائی حکومتوں اور محکموں میں بھی کئی اہم عہدوں پر ریٹائر اور حاضر سروس فوجی افسران تعینات ہیں۔
حکومتِ پاکستان کی اہم وزارتِ داخلہ کی باگ ڈور بھی ایک ریٹائرڈ فوجی افسر بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) پنجاب کے سربراہ کے علاوہ سابق ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو بھی رہ چکے ہیں۔
اسی طرح پاکستانی فوج کے سابق ترجمان اور سابق کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ چیئرمین سی پیک اتھارٹی کے علاوہ معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات بھی ہیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین میجر جنرل (ر) عامر عظیم ہیں۔
چیئرمین پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کا عہدہ پاکستانی فضائیہ کے حاضر سروس ایئر مارشل ارشد محمود ملک کے پاس ہے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل بھی پاکستان فضائیہ کے ریٹائرڈ اسکوارڈن لیڈر شاہ رخ نصرت ہیں جن کے ساتھ فضائیہ کے ہی کئی ریٹائرڈ افسران کام کر رہے ہیں۔
لیفٹینٹ جنرل (ر) مزمل حسین اس وقت واپڈا کے چیئرمین ہیں۔
اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ ایک عرصہ سے پاکستان فوج کے حاضر سروس میجر جنرل کے پاس ہے اور اس وقت میجر جنرل عارف ملک اس عہدے پر کام کر رہے ہیں۔
ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس (اے ایس ایف) کے سربراہ کا عہدہ بھی حاضر سروس ٹو اسٹار آرمی آفیسر میجر جنرل ظفر الحق کے پاس ہے۔
پنجاب پبلک سروس کمیشن کی سربراہی لیفٹینٹ جنرل (ر) مقصود احمد کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ دو ریٹائرڈ افسران میجر جنرل اشرف تبسم اور کیپٹن خالد پرویز بھی اس کمیشن کے رکن ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی سربراہی تھری سٹار حاضر سروس جنرل لیفٹینٹ جنرل محمد افضل کر رہے ہیں۔
نیا پاکستان ہاؤسنگ پراجیکٹ لیفٹینٹ جنرل (ر) سید انور علی حیدر کی نگرانی میں چل رہا ہے۔ اسی ادارے میں مزید فوجی افسران کو بھی حالیہ دنوں میں تعینات کیا گیا ہے۔
اہم عہدوں پر فوج کے سابق افسران کی تعیناتیوں کے سوال پر فوج کے ہی سابق لیفٹینٹ جنرل (ر) امجد شعیب کہتے ہیں کہ یہ تاثر درست نہیں کہ فوجی افسران ہر جگہ پر تعینات ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ آرمی افسران کو اکثر ان کی مہارت کی وجہ سے اداروں میں لایا جاتا ہے، بیشتر فوجی افسران کے آنے سے ان اداروں نے بہترین نتائج دیے ہیں۔
'ریٹائرڈ افسران بھی اسی قوم کا حصہ ہیں'
امجد شعیب کے مطابق اگر پی آئی اے کی مثال لیں تو وہاں ایئر مارشل نور خان نے اس کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ لیکن ان کے بعد آنے والے سول افسران اور سیاسی مداخلت کی وجہ سے یہ ادارہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔
امجد شعیب کے بقول اب اگر پی آئی اے کو ایئر مارشل چلا رہے ہیں تو وہ ایک تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ ان کے آنے سے ادارہ بہتر ہو گا، لیکن افسوس ان کے خلاف بھی سازشیں کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے ادارے ایسے ہیں جو براہِ راست سیکیورٹی سے منسلک ہیں لہذا اگر وہاں پر فوجی افسران تعینات ہوں تو وہ زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں۔ مثلاً ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس یا پھر اے این ایف کے ادارے ہیں۔
لہذٰا فوجی افسران کو الزام دینا درست نہیں، ریٹائرڈ افسران بھی اسی قوم کا حصہ ہیں اور اگر وہ اپنی صلاحیتوں سے ملک و قوم کو فائدہ دے سکیں تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس وقت حالات یہ ہیں کہ حکومت ڈیلیور نہیں کر پا رہی، ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔ لہذٰا اس حکومت کا بھرم رکھنے کے لیے فوجی افسران کو تعینات کیا جا رہا ہے۔
اُن کے بقول ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ عمران خان کی حکومت بھی چلتی رہے اور اداروں کی کارکردگی بھی بہتر ہو سکے۔
عائشہ صدیقہ کے بقول آرمی چیف نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع لی، لہذٰا اب وہ فیصلہ سازی میں شراکت دار ہیں۔
کیا یہ سیاسی حکومت کی کمزوری ہے؟
اس سوال پر تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ یہ سیاسی حکومت کی کمزوری ہے کہ وہ سول اداروں کو چلانے کے لیے قابل سول افسر تعینات نہیں کر سکی۔
اُن کے بقول اس کی اصل وجہ بیڈ گورنس ہے جو نہ صرف اس حکومت بلکہ ماضی کی حکومتوں کا بھی مسئلہ رہی ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) میں ریٹائرڈ نیول افسران کو لگایا جاتا رہا ہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت کئی ادارے ایسے تھے جہاں فوجی افسران کو لگایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں کہا گیا کہ ریٹائرڈ افسران کا فوج سے کوئی تعلق نہیں، لیکن پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ فوج کا اثر و رسوخ دیکھا گیا ہے۔
سویلین افسران کیوں کام نہیں کر رہے؟
فوجی افسران کے اداروں میں آنے سے سول افسران کے مورال پر کیا فرق پڑتا ہے اور سول افسران کی کارکردگی تنزلی کا شکار ہے یا نہیں؟
اس سوال پر سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ سول افسران کے مورال پر بلاشبہ فرق پڑتا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سول افسران کے کام کرنے کی آزادی کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اُنہیں اینٹی کرپشن، قومی احتساب بیورو (نیب) اور میڈیا کا خوف رہتا ہے، ایسے میں وہ بڑے فیصلے لینے سے کتراتے ہیں۔
تسنیم نورانی کے بقول حکومت بھی کئی معاملات میں سول افسران کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ لہذٰا ایسے فیصلے جن میں بھاری رقوم خرچ کرنے کا معاملہ ہو یا جارحانہ فیصلے لینا مقصود ہو تو سول افسران اس سے گریز کرتے ہیں۔ البتہ فوجی افسران کو اپنے ادارے کی حمایت حاصل ہوتی ہے، لہذٰا وہ بلا خوف و خطر کام کرتے ہیں اور بڑے فیصلے لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
اُن کے بقول فوجی افسران کے معاملے پر میڈیا بھی سوال نہیں اُٹھاتا۔
تسنیم نورانی نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد اور پنجاب کے ایک سینئر بیورو کریٹ احد چیمہ کا حوالہ دیا جنہیں کرپشن الزامات پر کئی ماہ تک جیل میں رہنا پڑا تھا۔
تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ کئی سول افسران کو ریٹائرمنٹ کے کئی سال بعد کسی معاملے پر پوچھ گچھ کے لیے بلانا بھی عام ہو چکا ہے۔ لہذٰا موجودہ افسران یہ سارا معاملہ دیکھ رہے ہیں، اسی لیے وہ سنبھل کر چلتے ہیں۔
اُن کے بقول فوج کا اگر کوئی ریٹائر یا حاضر سروس افسر کسی محکمے کا سربراہ ہو تو اس کے خلاف کارروائی سے ادارے گریز کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں مارشل لا اور فوجی مداخلت کے باعث فیصلہ سازی میں فوج کا کردار رہا ہے، لہذٰا اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
البتہ اس سے سول اداروں کے افسران میں بے چینی پائی جاتی ہے جو اہم عہدوں پر تعیناتیوں کی خواہش کے ساتھ ہی ریٹائر ہو جاتے ہیں۔