رسائی کے لنکس

'ٹاک شوز میں دفاعی تجزیہ کار آئی ایس پی آر کی اجازت سے شامل کیے جائیں'


پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے ٹی وی چینلز کیلئے ایک نیا حکم جاری کیا گیا ہے، جس کے مطابق، ریٹائرڈ فوجی افسر دفاعی تجزیہ کار کی حیثیت سے ٹی وی کے فوجی امور پر ٹاک شوز میں شرکت صرف پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی پیشگی اجازت سے کیا کریں گے؛ جبکہ دیگر امور پر ٹاک شوز میں ان پر شرکت کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔

پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے تمام سیٹلائٹ نیوز چینلز اور کرنٹ افیئرز چینلز پر نئی سے نئی شرائط عائد کی جا رہی ہیں۔ پہلے تمام پرائیویٹ چینلجز کو مثبت خبروں کو فروغ دینے کی ہدایت کی گئی تو اب ایک نیا حکم جاری کیا گیا ہے۔

پیمرا کے جنرل منیجر آپریشنز براڈکاسٹ میڈیا، محمد طاہر کے دستخطوں سے جاری مراسلے میں تمام چینلز کو کہا گیا ہے کہ ''متعلقہ حلقوں نے اس امر کا سختی سے مشاہدہ کیا ہے کہ ریٹائرڈ فوجی افسروں کو بار بار ’ڈیفنس تجزیہ کار‘ کے طور پر نیوز/کرنٹ افیئرز کے مختلف چینلوں میں مدعو کیا جانے لگا ہے''۔

مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ''یہ دعوت ان کو دفاعی تجزیہ کار کے طور پر دی جانے لگی ہے؛ اور ان کو قومی سلامتی اور متعلقہ معاملات پر رائے ظاہر کرنے کو کہا جاتا ہے''۔

اور یہ کہ ''ٹاک شوز میں ایسے مدعو کئے گئے بہت سے ریٹائرڈ فوجی افسران تازہ ترین دفاعی اور سیکورٹی کے رونما ہونے والے واقعات اور تبدیلیوں کا ادراک نہیں رکھتے، جبکہ بعض اوقات بحث سیکورٹی معاملات سے تبدیل ہوکر سیاست پر شفٹ ہو جاتی ہے۔ ایسے سیاسی مباحثے میں ریٹائرڈ فوجی افسروں کا شامل ہونا ناپسندیدہ ہے''۔

پیمرا نے ہدایات جاری کی ہیں کہ ''اگر کسی حالات حاضرہ کے ٹاک شو میں سابق فوجی افسران کو سیاسی امور پر تبصرہ کرنے کیلئے بلایا جائے تو ان کے نام کے ساتھ دفاعی تجزیہ کار کے بجائے صرف تجزیہ کار لکھیں، جبکہ دفاعی تجزیے کیلئے مدعو کرنے سے قبل آئی ایس پی آر سے کلیئرنس لینا ہوگی''۔

دفاعی تجزیہ کار کرنل انعام الرحیم ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ ''پیمرا کا آئی ایس پی آر سے کلئیرنس کا کہنا ہی انتہائی نامناسب ہے۔ یہ چینل انتظامیہ اور صحافی پر منحصر ہے کہ وہ کسی معاملے پر بحث کے لیے کسے مناسب سمجھتا ہے''۔

انہوں نے کہا کہ ''پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کسی ریٹائرڈ ملٹری افسر کے ساتھ کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ وہ کوئی کلئیرنس دینے کا اختیار نہیں رکھتے''۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ''کس قانون کے مطابق چینلز کو کہا جا رہا ہے کہ وہ آئی ایس پی آر سے کلئیرنس لیں۔ یہ خلاف قانون ہے۔ آئی ایس پی آر کا کام فوج کے مثبت کاموں کی تشہیر ہے۔ اس کا یہ کام نہیں کہ وہ چینلز میں بیٹھنے والے تجزیہ کاروں کے بولنے یا نہ بولنے کا فیصلہ کرے۔''

پیمرا نے تمام ٹی وی چینلز کو حکم نامے پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن، یہ بات واضح نہیں کہ وہ متعلقہ حلقے کون سے ہیں جنہوں نے ریٹائرڈ فوجی افسروں کی بطور دفاعی تجزیہ کار شوز میں شمولیت پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

اس بارے میں آج ٹی وی سے منسلک اینکر پرسن غریدہ فاروقی کہتی ہیں کہ کسی بھی مہمان کو یہ دیکھ کر بلایا جاتا ہے کہ وہ متعلقہ موضوع پر بات کرنے کی کس قدر صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے عمران خان حکومت میں ایسے احکامات جاری ہونے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ امید ہے یہ معاملہ اس سے آگے نہیں جائے گا۔

غریدہ فاروقی نے کہا ہے کہ ''پیمرا کا یہ حکم نامہ آزادی اظہار رائے پر قدغن کے مترادف ہے۔ اینکرز اور صحافی سمجھ بوجھ کے مطابق مہمانوں کو مدعو کرتے ہیں لیکن انہیں کسی ایک ادارے سے اجازت لینے سے مشروط کرنا درست نہیں۔''

انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس حکم نامے کو واپس لیا جائے گا اور تمام سٹیک ہولڈرز اس معاملے پر باہمی مشاورت سے اس مسئلے کو حل کریں گے۔

پیمرا کے حکم نامہ میں بتایا گیا ہے کہ مراسلے کی نقول ڈائریکٹر جنرل مانیٹرنگ پیمرا اور جنرل منیجر ٹو چیئرمین پیمرا کو بھی بجھوائی گئی ہیں اور یہ مراسلہ متعلقہ حلقوں کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد بھیجا گیا ہے۔

پاکستان میں موجودہ حکومت کے دور میں غیراعلانیہ سنسر شپ اور مالی پابندیاں بھی پہلی بار دیکھنے میں آئی ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے ملک بھر میں سینکڑوں اخبار و ٹی وی چینلز کے ملازمین نوکریوں سے فارغ ہوچکے ہیں یا ان کی تنخواہوں میں کمی کردی گئی ہے۔ حکومت کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے چینلز کو بے جا اربوں روپے کے اشتہارات جاری کیے جو اس حکومت کی طرف سے جاری نہیں کیے جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG