پاکستان میں مقیم امریکی شہری اور ٹریول بلاگر سنتھیا ڈی رچی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان تنازع شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جمعے کی شام ایک ویڈیو میں سنتھیا ڈی رچی نے الزام عائد کیا ہے کہ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے انہیں اپنے گھر پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
سنتھیا نے الزام لگایا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر صحت مخدوم شہاب الدین نے ایوانِ صدر میں انہیں جسمانی طور پر ہراساں کیا۔
البتہ، یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے سنتھیا کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔
اس سے قبل سنتھیا نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ان کے خلاف ایف آئی اے سائبر ونگ اور ملک کے مختلف شہروں کے پولیس اسٹیشنز میں مقدمات کے اندراج کے لیے درخواستیں جمع کرائی گئی تھیں لیکن یہ مقدمہ تاحال درج نہیں ہوا۔
دوسری جانب سنتھیا ڈی رچی نے پیپلز پارٹی کے مختلف قائدین کی نجی تصاویر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری کرنا شروع کر دیں ہیں۔ ان تصاویر کے ساتھ ساتھ سنتھیا ڈی رچی کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے مختلف کارکنوں کی طرف سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ ان دھمکیوں کے حوالے سے اُنہوں نے پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو درخواست دے دی ہے۔
زیادتی کے الزامات
تازہ ترین فیس بک لائیو میں سنتھیا رچی کا کہنا تھا کہ 2011 میں اس وقت کے وزیرِ داخلہ رحمن ملک نے انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا۔ دس منٹ سے زائد کی اس ویڈیو کے آغاز میں ان کا کہنا تھا کہ اس ویڈیو کو 18 سال سے کم عمر کے افراد نہ دیکھیں۔
انہوں نے کہا کہ سال 2009 میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے کہنے پر ہی پاکستان آئی تھیں۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ان کی کردار کشی کرتے رہے ہیں، جس کے جواب میں وہ ان کی اصلیت بتا رہی ہیں۔
رحمان ملک کی طرف سے زیادتی کے الزام کے بارے میں سنتھیا کا کہنا تھا کہ سال 2011 میں وہ اپنے ویزہ کے متعلق بات کرنے کے لیے وزیر داخلہ رحمان ملک سے ملنے ان کے گھر گئی جہاں مجھے نشہ آور مشروب دیا گیا اور زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے وزیرداخلہ کے خلاف میری مدد کون کرتا۔
ویڈیو میں سنتھیا کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے متعلق انہوں نے امریکی سفارت خانے کو آگاہ کیا تھا، لیکن اس وقت پاکستان اور امریکہ کے مابین پیچیدہ تعلقات کی وجہ سے موزوں ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔
یہ وہ وقت تھا جب اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے دن تھے اور پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات اچھے نہیں تھے۔ اس وجہ سے سفارت خانے نے بھی کوئی خاص ردعمل نہیں دیا۔
سنتھیا کا کہنا ہے کہ ان کے پاکستانی منگیتر نے اس حوالے سے حقائق سامنے لانے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی۔
سنتھیا رچی نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وفاقی وزیر صحت مخدوم شہاب الدین پر بھی ایوانِ صدر میں ان کے ساتھ جنسی ہراسانی کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔
سنتھیا ڈی رچی نے اس ویڈیو میں موجودہ ڈی جی ایف آئی اے سے رابطے کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ انہیں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی طرف سے ریپ کرنے کی دھمکیاں ملی ہیں۔
سنتھیا کے بقول انہوں نے ایف آئی اے کو مقدمہ درج کرنے لیے درخواست کی ہے۔ لیکن ان کی رپورٹ کی تفتیش کرنے والا اہلکار ان کی مخالفت میں مصروف رہا اور ان کے مخالفین کا حامی نظر آرہا تھا، جس پر انہوں نے اسے تبدیل کرنے کی درخواست کی ہے۔
یوسف رضا گیلانی کا ردعمل
پاکستان میں مختلف نیوز چینلز پر خبریں نشر ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 'اے آر وائی' نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سنتھیا رچی کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کی حیثیت میں ایسا کوئی قدم اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
انہوں نے کہا کہ سنتھیا ڈی رچی سوشل میڈیا پر بہت سے الزامات لگا رہی ہیں اور انہوں نے خاتون ہوتے ہوئے بے نظیر پر بھی سنگین الزام تراشی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ عرصہ میں سنتھیا ڈی رچی کے خلاف بے نظیر بھٹو پر گھٹیا الزامات لگانے پر ان کے بیٹے حیدر گیلانی نے اندراج مقدمہ کے لیے درخواست دی ہے، جس کی وجہ سے وہ انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ان کا نام لے رہی ہیں جب کہ درحقیقت ایسا کچھ نہیں ہوا۔
سنتھیا ڈی رچی کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل ایک سفارت کار دوست کے گھر دعوت پر ان کی ملاقات سنتھیا ڈی رچی سے ہوئی، لیکن ان کے وزارت عظمیٰ کے دور میں ان کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
رحمان ملک کا ردعمل
سینیٹر رحمان ملک نے بھی اپنے ترجمان کے ذریعے سنتھیا ڈی رچی کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔
رحمان ملک کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ سینیٹر رحمان ملک امریکی خاتون سنتھیا ڈی رچی کے من گھڑت، بیہودہ اور نازیبا الزامات کا جواب دینا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی خاتون کے الزامات بدنیتی پر مبنی ہیں جس کا مقصد سینیٹر رحمان ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔ امریکی خاتون نے یہ الزامات کسی مخصوص فرد یا گروہ کے اکسانے پر لگائے ہیں۔
بیان کے مطابق سینیٹر رحمان ملک نے کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی ہے جس پر بھارت کی خفیہ ایجنسی را کی جانب سے اُنہیں دھمکیاں بھی ملتی رہتی ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ سینیٹر رحمان ملک کے خلاف یہ الزامات اس وقت سامنے آئے ہیں جب انہوں نے بحیثیت چیئرمین سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ، امریکی خاتون کے بے نظیر بھٹو پر لگائے گئے الزامات کا نوٹس لیا تھا۔
سنتھیا ڈی رچی ہیں کون؟
سنتھیا ڈی رچی کے تصدیق شدہ ٹوئٹر اکاؤنٹ کے مطابق وہ ای ٹریبون، دی نیوز انٹرنیشنل ساؤتھ ایشیا میگزین کے لیے لکھتی ہیں جب کہ میڈیا ڈائریکٹر اور پرڈیوسر بھی ہیں۔ یوٹیوب پر ان کا ایک چینل بھی موجود ہے جس پر پاکستان کے مختلف مقامات پر ان کی بنائی گئی دستاویزی فلمیں موجود ہیں جن کے ذریعے پاکستان کا مثبت تاثر اجاگر کیا گیا ہے۔
ٹوئٹر پر ان کے فالورز کی تعد ایک لاکھ 74 ہزار سے زائد ہے، جن میں بیشتر پاکستانی ہیں۔ ٹوئٹر ہینڈل پر ان کی پاکستانی لباس اور زیورات میں ملبوس ایک تصویر لگی ہوئی ہے۔
ٹوئٹر پر ان کی بے نظیر بھٹو سے متعلق ٹوئٹس کے بعد ان پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں اور وہ بیشتر الزامات کے خود جواب دے رہی ہیں۔
ٹوئٹر پر انہوں نے ایک پول بھی شروع کروایا ہے جس میں انہوں نے عوام سے پوچھا ہے کہ سب سے کم کرپٹ کون ہے؟ چار خواتین کے ناموں میں شیری رحمان، بشریٰ گوہر، مریم اور اپنا نام گوری جاسوس لکھا ہے۔
پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی جانب سے تنقید کے بعد سنتھیا نے بعض دھمکی آمیز ٹوئٹس کے سکرین شاٹس بھی شئیر کیے ہیں۔
ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر مبینہ طور پر پاکستان کے فوجی اہل کاروں کی کئی تصاویر بھی موجود ہیں۔
سنتھیا ڈی رچی نے حالیہ دنوں میں پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب اور کئی ارکان کی بعض نجی تصاویر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کی ہیں۔
کچھ لوگ انہیں پاکستان فوج سے منسلک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور فوجی اہل کاروں سے متعلق کی جانے والی ان کی مثبت ٹوئٹس پر انہیں پاکستانی حساس اداروں کے پراجیکٹ کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
لیکن، سنتھیا اس بارے میں لوگوں کو براہ راست جواب دے رہی ہیں جن میں ان کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی یونیفارم فورسز کے ساتھ ہیں۔
سنتھیا ڈی رچی پہلی بار ایسے کسی معاملہ میں ملوث نہیں ہوئیں بلکہ ماضی میں صحافیوں سے بھی ان کی سوشل میڈیا پر نوک جھونک ہو چکی ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ان کی حمایت میں ہزاروں افراد نے ٹوئٹس کیے اور نئے ٹرینڈز بنا دیے۔
اس وقت ٹوئٹر اور فیس بک پر جہاں سنتھیا کی مخالفت کی جا رہی ہے اور ان کے خلاف سخت زبان استعمال کی جا رہی ہے، وہیں بعض اکاؤنٹس کی طرف سے انہیں پیپلز پارٹی قائدین کے خلاف ٹوئٹس کرنے پر سراہا بھی جا رہا ہے۔
سنتھیا ڈی رچی نے ایک ٹوئٹر صارف کے سوال کے جواب میں حال ہی میں کہا تھا کہ ان کا اگلا ہدف مسلم لیگ (ن) ہو گی۔