سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) اعجاز احمد چوہدری نے کہا ہے کہ جاوید ہاشمی نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ اقتدار سے نکالے گی۔ بعد میں ایسا ہی ہوا۔ عدالتوں میں مداخلت تب ہوتی ہے جب اس کی گنجائش دی جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ کے لیے سینئر صحافی سہیل وڑائچ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔
جسٹس (ر) اعجاز چوہدری کے بقول "2014 میں جب عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو میں سپریم کورٹ کا جج تھا۔ تب میرے یونیورسٹی کے زمانے کے ساتھی جاوید ہاشمی نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا تھا کہ وزیرِ اعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ اقتدار سے نکالے گی۔"
"اس وقت ناصر الملک چیف جسٹس تھے۔ میں نے سوچا کہ ناصر الملک صاحب تو ٹھیک آدمی ہیں۔ وہ اس طرح کے نہیں لگتے کہ انہوں نے کسی سے ایسا وعدہ کر لیا ہو۔ وہ وقت گزر گیا۔ لیکن پھر نواز شریف کو سپریم کورٹ ہی نے نکالا۔ اب پتا نہیں ان کی کس سے بات ہوئی تھی۔"
جسٹس (ر) اعجاز چودھری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے بہت سے فیصلے ہیں جنہیں لوگوں نے کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا اور کہا گیا کہ وہ فیصلے درست نہیں ہیں۔ ان میں ذوالفقار علی بھٹو کا کیس بھی ہے اور اس کے علاوہ بھی کئی فیصلے ہیں۔ پانامہ کیس کا فیصلہ بھی اسی طرح کا ہے۔
سابق جج کا کہنا تھا کہ جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ کو لاہور ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج بننے کے ایک سال بعد مستقل کرنے کا مرحلہ آیا تو اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے اعتراض کیا تھا۔ وزیرِ اعظم نواز شریف نے ایوانِ صدر جا کر ان سے بات کی لیکن وہ نہ مانے۔ اس پر دونوں کی بطور ایڈیشنل جج مدت ایک سال بڑھا دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس بات پر جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ میاں نواز شریف سے ناراض ہوئے یا نہیں۔ لیکن جب دوسرے جج حلف اٹھالیں تو مستقل نہ ہونے والوں کو تکلیف تو ہوتی ہے۔ جج اپنے فیصلوں میں آزاد ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی جج نے نواز شریف سے ناراضی کی وجہ سے ان کے خلاف فیصلہ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف حقائق بیان کر رہے ہیں۔ بعد میں دونوں جج مستقل ہوئے اور پھر ترقی پا کر چیف جسٹس بھی بنے۔
قاضی فائز عیسیٰ کیس سے متعلق سوال پر جسٹس (ر) اعجاز چوہدری نے کہا کہ ابھی مختصر فیصلہ آیا ہے اور تفصیلی فیصلہ آنا باقی ہے جس میں وجوہات بیان کی جائیں گی۔
"سپریم کورٹ نے ریفرنس ختم کر دیا ہے اور کہا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچے ایف بی آر میں پیش ہوں۔ لیکن یہ جو لکھا ہے کہ ان کے بچوں کا نوٹس ان کے مکان پر لگایا جائے، وہ اتنے دن میں پیش ہوں اور پیش نہ بھی ہوں تو اتنے دن میں فیصلہ کر دیا جائے، تو سپریم کورٹ کو ایک جج کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔"
روزنامہ جنگ اور جیو نیوز کے مالک میر شکیل الرحمان کیس کے بارے میں جسٹس (ر) اعجاز چوہدری نے کہا کہ کسی سماعت پر نوٹس جاری ہوئے کبھی بینچ ٹوٹ گیا، کبھی ججوں نے کہا کہ ہم نے کیس پڑھا ہی نہیں۔ ایک سماعت صرف اس لیے دو ہفتے بعد تک ملتوی کر دی گئی کہ ایک جج کو دی گئی فائل میں کمنٹس کا ایک پیراگراف شامل نہیں تھا۔
ان کے بقول یہ نامناسب حکم لگتا ہے۔ یہ ایک شخص کی ضمانت اور آزادی کا معاملہ تھا۔ اسے منظور کرنا تھا تو فوراً کر دیتے، نہیں کرنا تھا تو درخواست خارج کر دیتے۔
جسٹس (ر) اعجاز چوہدری نے کہا کہ جب وہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو کئی آسامیاں خالی تھیں۔ ان کے بقول "ایک دن آئی ایس آئی کے جرنیل صاحب کا فون آیا کہ آپ جج رکھ رہے ہیں؟ میں نے کہا، جی ہاں۔ انہوں نے کہا کہ فلاں فلاں آدمی کو بھی جج بنا دیں۔ میں نے پوچھا کیا آپ لوگوں کو لیفٹننٹ جنرل بناتے ہیں؟ انہوں نے کہا، جی ہاں۔ میں نے کہا کہ پھر میرا بھی ایک لیفٹننٹ جنرل بنا دیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو نہیں ہو سکتا۔ اس پر میں نے کہا کہ ہم کیا یہاں ریوڑیاں بانٹ رہے ہیں؟ پھر فون بند ہو گیا۔"
سابق جج کا کہنا تھا کہ ان کے دور میں عدالتی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں تھی۔ مداخلت اسی وقت ہوتی ہے جب لوگ گنجائش پیدا کرتے ہیں۔ سہیل وڑائچ نے سوال کیا کہ کیا اس وقت گنجائش ہے؟ اس پر جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد اچھے جج ہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ سپریم کورٹ کا خراب ہونے والا تاثر بہتر بنائیں گے۔