پاکستان کے سابق صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کو خصوصی عدالت کی جانب سے آئین شکنی کے مقدمے میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد پاکستان میں عدلیہ کا کردار موضوعِ بحث ہے۔
انسانی بنیادی حقوق سے متعلق کیسز ہوں یا پھر ایسے معاشرتی مسائل جن کا کوئی فوری حل نظر نہ آئے۔ ایسے میں پاکستان کے عوام عمومی طور پر عدالتوں کی طرف دیکھتے ہیں۔
بعض معاملات میں عدالتی احکامات کی روشنی میں ریلیف مل جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ بحث ہمیشہ جاری رہی ہے کہ کیا عدالتیں اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتی ہیں؟
اس ضمن میں جوڈیشل ایکٹوازم یا عدالت جب کسی معاملے کا ازخود نوٹس لیتی ہے تو یہ معاملہ موضوع بحث بن جاتا ہے۔
حال ہی میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی جانب سے ڈیم کی تعمیر کا بیڑا اٹھانے کے علاوہ اسپتالوں کی حالت زار بہتر بنانے جیسے بظاہر انتظامی معاملات میں عدالتی مداخلت پر بھی بعض قانونی ماہرین سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں 'جوڈیشل ایکٹوازم' کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
جوڈیشل ایکٹوازم کی تعریف کیا ہے؟
قانونی ماہر سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ جوڈیشل ایکٹوزم نام کی کوئی چیز نہیں ہے، یہ بس ایک اصطلاح ہے۔ جو اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب عدالت کسی ایسے مسئلے کو اٹھاتی ہے جس کی نوعیت فوجداری ہو نہ ہی دیوانی بلکہ اس کا براہِ راست تعلق بنیادی انسانی حقوق سے ہو۔
سلمان اکرم راجہ کے بقول، بنیادی انسانی حقوق میں صاف پانی کی دستیابی سے لے کر اسپتالوں میں بہتر طبی سہولیات کی فراہمی جیسے مسائل شامل ہیں۔ مگر وہ لکیر جو عدالتوں کو مقننہ اور انتظامیہ کے دائرہ کار سے علیحدہ کرتی ہے وہ بہت باریک ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ عدالتی دائرہ کار کہاں شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم اس کا تعین کیا جانا چاہیے ورنہ معاملات الجھ سکتے ہیں اور ماضی میں الجھتے بھی رہے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ عدالتیں ایسے مسائل پر بات کرتی ہیں جن پر ان کی معلومات بسا اوقات محدود ہوتی ہے۔ لہذٰا اس کی روشنی میں دیے گئے احکامات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے بہت سے فیصلے ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو جاتے ہیں۔
احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اسٹیل مل کی نجکاری روکی جبکہ ایل پی جی کے معاہدے کو بھی معطل کیا۔ اس سے کئی مسائل پیدا ہوئے۔
لاہور کی اورنج لائن ٹرین کا حوالہ دیتے ہوئے احمد بلال محبوب نے کہا یہ معاملہ 22 ماہ تک عدالت میں رہا جس سے لامحالہ اس عوامی منصوبے کی تکمیل میں تاخیر ہوئی۔
'انسانی حقوق کا مسئلہ ہو تو عدالتیں نوٹس لیتی ہیں'
انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل حنا جیلانی کہتی ہیں کہ جوڈیشل ایکٹوازم اس صورت میں لاگو ہوتا ہے جب انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا اندیشہ لاحق ہو۔
حنا جیلانی کے بقول "جب انتظامی یا دیگر ادارے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری نہ کریں اور اس سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہو رہے ہوں تو عدالتیں ان معاملات میں مداخلت کر کے ریلیف دے سکتی ہیں۔"
البتہ حنا جیلانی کہتی ہیں کہ پاکستان میں ہم نے دیکھا ہے کہ جوڈیشل ایکٹوازم کے باعث بعض انتظامی ادارے کمزور بھی ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ "جو جوڈیشل اکٹوازم حالیہ برسوں میں ہم نے دیکھا ہے۔ ایسا ایکٹوازم تو میں کبھی بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔"
'کمزور جمہوری حکومتیں بھی ذمہ دار ہیں'
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ جوڈیشل ایکٹوازم کا راستہ خود سول حکومتوں نے کھولا ہے۔
اُن کے بقول، "سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان متعدد بار دوران سماعت ریمارکس دیتے رہتے ہیں کہ یہ کام انتظامیہ کے کرنے کے ہیں جو اُنہیں کرنا پڑ رہے ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں یا تو سول حکومتیں کمزور رہیں یا انہیں کمزور رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے معاملات پھر عدالتوں نے حل کیے۔
احمد بلال محبوب کے مطابق بلدیاتی انتخابات کا انعقاد حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر اس میں تاخیر ہوتی ہے تو کوئی تو عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے عوامی مسائل جو انتظامیہ کو حل کرنے چاہئیں انہیں عدالتیں حل کرتی ہیں۔
کیا دیگر ملکوں میں بھی جوڈیشل ایکٹوازم کی مثال ملتی ہے؟
بھارت کی مثال دیتے ہوئے سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ 70 کی دہائی میں بھارت میں اس ایکٹوازم نے یک دم زور پکڑا تھا۔ اس وقت مسئلہ ملک میں سڑکوں کی توسیع کا تھا۔ اس تحریک کے نتیجے میں کچھ سڑکیں تو بن گئیں لیکن بات اس سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
ایسے فوری اقدامات کے معاشرے پر کتنے دیر پا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس بارے میں سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ ایک دو کام تو عدالتی احکامات کی روشنی میں ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایکٹوازم کے نتیجے میں کوئی دیر پا تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ ایسی تبدیلیاں سیاسی اور انتظامی ادارے ہی لا سکتے ہیں۔
حنا جیلانی کہتی ہیں کہ یہ منطق بالکل غلط ہے کہ چونکہ ایک آئینی ادراہ کمزور ہے تو اس کے دائرہ کار کی نفی کی جائے۔ ان کے بقول "ہونا یہ چاہیے کہ اگر پارلیمان کمزور ہے تو ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے پارلیمان کو تقویت ملے، نہ کہ ایسے جس سے اس کی توقیر کم ہو جائے۔"
کیا جوڈیشل ایکٹوازم کا دائرہ کار طے ہو سکتا ہے؟
کمزور اداروں کی مضبوطی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ایکٹوازم کا پھیلاؤ بہت وسیع ہے اور معنی بہت مبہم ہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
اُن کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں قواعد و ضوابط طے کرنا قانون سازوں کا کام ہے لیکن ایسا نہیں ہو سکا لہذٰا عدالت کو کچھ حدود قیود طے کر لینی چاہئیں۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ "موجودہ چیف جسٹس متعدد بار یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ اس ضمن میں سفارشات سامنے لائیں گے جس سے جوڈیشل ایکٹوازم کی تشریح ہو سکے اور کوئی ایک فرد اس کی تشریح نہ کرے۔"
قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ انسانی حقوق سے منسلک معاملات پر عدالتوں کی مداخلت میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ (پارلیمنٹ) کے اختیارات کو تقسیم کرنے والی باریک لائن کو مدنظر رکھ کر ہی پاکستان میں جمہوریت مضبوط کی جاسکتی ہے۔