پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ملک کے نئے 'سیاسی نقشے' کی منظوری دی ہے۔ جو آئندہ سے ملک کے سرکاری نقشے کے طور پر دیکھا جائے گا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ نقشے میں پاکستان، بھارت اور چین کے درمیان خطہ کشمیر کے ان متنازع علاقوں کو بھی پاکستانی حدود کے اندر قرار دیا گیا ہے۔ جس کا فیصلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت ابھی حل طلب ہے۔
سرکاری نقشے میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے منسلک گلگت بلتستان کے علاوہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کو بھی پاکستان کے نقشے میں شامل کیا گیا ہے۔
پاکستان کی جانب سے نیا نقشہ ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب بھارت کی طرف سے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔
پاکستان کے نئے نقشے میں کشمیر کے مقام پر سیاہ رنگ سے تحریر کیا گیا ہے کہ 'یہ بھارت کی جانب سے غیر قانونی طورپر قبضے میں لیا گیا جموں کشمیر ہے۔'
نقشے میں سرخ رنگ سے تحریر کیا گیا ہے کہ ‘یہ ایک متنازع علاقہ ہے جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت ہونا باقی ہے۔'
اسی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان اسی خطے میں واقع دنیا کے سب سے اونچے جنگی محاذ ‘سیاچن’ کو بھی پاکستان کی حدود میں دکھایا گیا ہے۔ جسے بھارت نے سن 1984 میں فوجی آپریشن کے بعد اسے اپنا حصہ قرار دیا تھا۔
نقشے میں سابقہ قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ قرار دیا ہے جب کہ جنوب میں 'سرکریک' کے مشرقی حصے کو پاکستان نے بین الاقوامی سرحد قرار دیا ہے۔ جس کے بارے میں بھارت کا مؤقف ہے کہ سرکریک کے مغربی کنارے پر 'بین الاقوامی سرحد' واقع ہے۔
اس کے علاوہ بھارتی ریاست گجرات میں واقع جونا گڑھ اور مناودار کے علاقے کو بھی پاکستان نے اپنے نقشے میں ایک بار پھر شامل کیا ہے۔
نقشہ پاکستانی قوم کی امنگوں کا ترجمان
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق ملک کا نیا نقشہ پاکستان کے مؤقف کی مزید وضاحت کرتا ہے اور یہ بھارت کے لیے واضح پیغام ہے کہ یہ نقشہ ہماری منزل کی عکاسی کرتا ہے۔
وزیرِ خارجہ کے بقول "ان کی منزل سرینگر ہے۔ ان کی منزل وہ خواب ہے جو ان کے بزرگوں نے دیکھا تھا۔"
"پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نئے نقشے کو صحیح معنوں میں پاکستان کی قوم کی امنگوں کا ترجمان قرار دے رہے ہیں۔"
ان کے بقول نئے سیاسی نقشے کی تائید کشمیری قیادت کے علاوہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھی کی ہے۔
منگل کو وزیرِ اعظم عمران خان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی موجود تھے۔
پریس کانفرنس میں وزیرِ اعظم عمران خان نے بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام کشمیر کے مسائل کا حل نہیں ہے۔
ان کے بقول پاکستان کے عوام کی خواہش ہے کہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے اور یہ نقشہ اس بارے میں پہلا قدم ہے۔
'پاکستان اب بیٹھ کر صورتِ حال دیکھنے کے موڈ میں نہیں ہے'
پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ملک کے نئے سیاسی نقشے کے اجرا پر بات کرتے ہوئے جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق چئیرپرسن ڈاکٹر طلعت اے وزارت نے کہا ہے کہ سیاسی نقشے سے کسی ملک کے ارادوں کا تعین کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر طلعت کے مطابق پاکستان کے اس اقدام کا مقصد بھارت کی جانب سے کشمیر سے متعلق ہونے والے اقدامات کا سیاسی جواب دینا ہے۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان مزید عزم کے ساتھ سامنے آیا ہے۔
ان کے بقول پاکستان اب بیٹھ کر صورتِ حال دیکھنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ پاکستان دنیا کو بتانا چاہ رہا ہے کہ اس تنازع کو حل کرنے میں دنیا کو سنجیدگی دکھانا ہو گی اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانا ہو گا۔
ڈاکٹر طلعت کہتی ہین کہ کشمیر سے متعلق بھارت کے پانچ اگست 2019 کے یکطرفہ اقدامات اور اس پر دنیا کے سرد رد عمل سے پاکستان کی پوزیشن کمزور ہوتی نظر آ رہی تھی۔ جو کہ سفارت کاری کا حصہ ہے۔ لیکن نئے سیاسی نقشے کے اجرا سے پاکستان نے اس عمل کا جواب سوچ سمجھ کر دیا ہے۔ جس کے لیے ایک سال کا انتظار کیا گیا۔ اگر فوری طور پر جواب دیا جاتا تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ یہ بھارتی عمل کا رد عمل ہے۔
پاکستان کے سابق سفیر ظفر ہلالی بھی اس خیال سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیاسی نقشہ جاری کرنے کا مقصد دنیا کو خبردار کرنا ہے کہ عالمی برادری نے کشمیر سے متعلق اپنا وعدہ نہیں نبھایا۔
ظفر ہلالی کا کہنا ہے کہ پاکستان کا نیا نقشہ اُن بھارتی دھمکیوں کا جواب ہے جس میں کہا گیا تھا کہ گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر پر حملہ کر کے اسے قبضے میں لیا جائے گا۔
ان کے مطابق پاکستان نے دیکھا ہے کہ شملہ معاہدے کے تحت دو طرفہ مذاکرات سے کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کی امید نہیں۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے بھی کشمیر میں استصواب رائے کرانے سے بھارت انکاری ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کو معلوم ہے کہ اس ریفرنڈم کا کیا نتیجہ نکلے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ظفر ہلالی نے کہا کہ اقوامِ متحدہ اپنے فیصلے کا اطلاق نہیں کرا سکتی تو پھر پاکستان نے اپنے مؤقف کو نقشے میں بھی ظاہر کر دیا ہے کہ اس خطے پر ہمارا دعویٰ ہے۔ ایسا کر کے پاکستان کی جانب سے ایک مضبوط اشارہ دیا گیا ہے۔
معروف مصنف، صحافی اور تاریخ دان عقیل عباس جعفری کے خیال میں حکومت پاکستان کی جانب سے نیا سیاسی نقشہ جاری کرنے کے پیچھے ‘جذباتیت’ کا عنصر کار فرما ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی جذباتی چیزیں وقتی تعریفوں کا سبب ضرور بنتی ہیں لیکن اس سے دیرپا چیزیں نکلتی نظر نہیں آتیں اور نہ ہی اس سے کوئی دیرپا فائدہ ہو گا۔
ان کے بقول جونا گڑھ اور مناودر کے نقشوں کو پہلے ہی اپنے نقشوں سے پاکستان نکال چکا تھا۔ اسی طرح حیدرآباد دکن کو بھی ہم بھلا چکے ہیں۔
عقیل جعفری کے مطابق یہ سب جذباتی چیزیں ہیں۔ جس کا مقصد لوگوں کے غصے کو ٹھنڈا کرنا ہے۔ عوام کو اس بات کا غصہ ہے کہ ایک سال کے بعد بھی کشمیر کے معاملے پر عالمی طاقتوں نے کوئی مدد نہیں کی اور بھارت نے آسانی کے ساتھ اپنے آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کو اپنا حصہ قرار دے دیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نقشوں میں تبدیلی، کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر سری نگر ہائی وے کرنے یا ڈاک ٹکٹ جاری کرنے سے دباؤ نہیں بڑھایا جاسکتا۔ بلکہ اس مقصد کے لیے مسلم ملکوں کی تنظیم 'او آئی سی' کو متحرک کیا جائے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ میں اپنا کیس زیادہ طاقت اور قوت سے پیش کرنا چاہیے تاکہ کشمیریوں کی قربانیوں کو ٹھیک طریقے سے پیش کیا جا سکے۔
دوسری جانب بھارت نے پاکستان کی جانب سے نئے 'سیاسی نقشے' کے اجرا کو ‘سیاسی بےہودگی’ سے تعبیر کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔
بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق یہ نقشہ بھارت کی ریاستوں گجرات اور کشمیر پر غیر مدلل دعووں کی مشق ہے۔ جو سرحد پار دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کے توسیع پسندانہ عزائم کی عکاس ہے۔ اس مضحکہ خیز اقدام کی کوئی قانونی حیثیت یا بین الاقوامی ساکھ نہیں۔
اُدھر پاکستان نے بھارت کی وزارت خارجہ کے بیان کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ نفاست اور حقائق کو مسخ کرنے سے بھارت غیر قانونی اور ناقابل قبول عمل سے جموں اور کشمیر پر اپنے قبضے اور پانچ اگست 2019 کے اقدامات پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کر سکتا۔