پاکستان چین اقتصادی راہداری سے متعلق قائم ادارے 'سی پیک' اتھارٹی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ اور ان کے خاندان کے بیرونِ ممالک مبینہ اثاثوں کے بارے میں رپورٹ منظر عام پر لانے والے صحافی احمد نورانی نے کہا ہے کہ وہ اپنی رپورٹ اور اس کے ساتھ دیے گئے ثبوتوں کی صحت پر پورے یقین سے قائم ہیں اور کسی بھی عدالت میں جواب دہی کے لیے تیار ہیں۔
احمد نورانی اس وقت امریکہ میں موجود ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ باجوہ خاندان سے متعلق انہوں نے جو کچھ بھی رپورٹ کیا ہے، اس کے ساتھ تصدیق شدہ سرکاری دستاویزات بھی شائع کی ہیں۔
احمد نورانی کے بقول اُن کے پاس مزید دستاویزات بھی ہیں، لیکن انہی دستاویزات کو رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے جن کی پاکستان، امریکہ، کینیڈا اور متحدہ عرب امارت کی حکومتوں سے تصدیق ہوئی ہے۔
صحافی احمد نورانی کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اُنہیں عدالت لے جایا جائے کیوں کہ ان کے بقول "میں یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ یہ دستاویزات درست ہیں۔ اس بارے میں ہمارے پاس مزید معلومات تھیں مگر ہم نے وہی شائع کیں جن کی ہم تصدیق کر پائے۔"
یاد رہے کہ صحافی احمد نورانی نے 27 اگست کو ایک ویب سائٹ پر شائع کردہ اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ جس وقت فوج میں ترقی پا رہے تھے، اس دوران اُن کے خاندان نے ملک کے اندر اور بیرونِ ممالک 200 کے قریب کاروبار اور درجنوں کمرشل اور رہائشی جائیدادیں خریدیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ باجوہ خاندان کی مذکورہ جائیدادوں کی مالیت 52 اعشاریہ دو ملین ڈالر ہے جو پاکستانی کرنسی میں 876 کروڑ روپے بنتی ہے۔ اس رقم کی سرمایہ کاری سے جنرل عاصم کی اہلیہ اور بھائیوں نے دو انٹرنیشنل فوڈ چینز کے تین ممالک میں 174 فرنچائز ریسٹورنٹ قائم کیے۔
رپورٹ میں سرکاری دستاویزات کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ اس وقت باجوہ خاندان کی 133 فرنچائزز فعال ہیں۔
اس سلسلے میں احمد نورانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کی خبر 'پاپا جانز پیزا' کے حوالے سے نہیں، کیوں کہ یہ خبریں پہلے سے ہی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں۔ ان کے بقول یہ تحقیقات تب شروع کی گئیں جب عاصم باجوہ کے سب سے چھوٹے بھائی نے دعویٰ کیا کہ عاصم باجوہ اور اُن کے خاندان کا مذکورہ فرنچائزز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
احمد نورانی کے بقول امریکہ اور پاکستان کی سرکاری تصدیق شدہ دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ عاصم باجوہ کی اہلیہ شروع سے ہی اس کاروبار میں حصہ دار ہیں۔
احمد نورانی نے کہا کہ وزیرِ اعظم کے کہنے پر جب ان کے مشیروں نے اپنے اثاثے ظاہر کیے تو عاصم باجوہ نے اپنے اثاثوں میں مذکورہ کاروباروں کا ذکر نہیں کیا اور بیرونِ ملک اثاثوں کے کالم کے سامنے 'Nil' لکھا جو کہ عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔
یاد رہے کہ عاصم باجوہ وزیرِ اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات بھی ہیں۔ انہوں نے مذکورہ رپورٹ پر اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وہ اپنے اور خاندان کے خلاف چھپنے والی خبر کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔
احمد نورانی کی رپورٹ کے مندرجات کے مطابق جنرل (ر) عاصم باجوہ کے بیٹوں نے 'باجکو' گروپ میں 2015 میں شمولیت اختیار کی۔ پاکستان اور امریکہ میں اس گروپ کے علاوہ مزید نئی کمپنیوں کی بنیاد اُس وقت رکھی گئی جب عاصم باجوہ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل اور پھر کمانڈر سدرن کمانڈ تھے۔
احمد نورانی نے کہا کہ "میری اسٹوری کے اہم نکات میں سے ایک یہ ہے کہ جب عاصم باجوہ فوج میں اہم عہدوں پر فائز تھے، تب ان کے بچوں کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے؟ اور انہوں نے اس دوران متعدد شعبوں میں کئی کمپنیاں کیسے کھولیں؟
'پاکستان واپس جانے کے لیے پرجوش ہوں'
صحافی احمد نورانی نے بتایا کہ ان کی خبر کے شائع ہونے اور پھر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سے اُنہیں دھمکی آمیز پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔
انہوں نے شکوہ کیا کہ پاکستان میں مین اسٹریم میڈیا اور صحافیوں کے حقوق کی تنظیموں نے اُن کے لیے آواز بلند نہیں کی۔
احمد نورانی نے کہا کہ وہ پاکستان سے پیار کرتے ہیں اور چند ماہ کے بعد پاکستان لوٹنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان کے بقول وہ کبھی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوئے اور اپنی صحافتی ذمہ داریاں جاری رکھیں گے۔
عاصم سلیم باجوہ سے رابطے کی کوشش
عاصم باجوہ کی طرف سے تاحال معاملے پر مزید کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ وائس آف امریکہ نے پیر کو ان کے ٹیلی فون نمبر پر رابطہ کیا تا کہ ان کا مؤقف لیا جا سکے لیکن کوئی جواب موصول نہ ہو سکا۔
اسی طرح وی او اے نے وزیرِ اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز اور وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل سے بھی تحریری پیغامات اور کالز کے ذریعے مؤقف لینے کی کوشش کی لیکن دونوں عہدیداروں نے تا حال جواب نہیں دیا۔
البتہ شبلی فراز نے پیر کو اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ان کی عاصم باجوہ سے بات ہوئی ہے اور وہ آئندہ چند روز میں اپنے اثاثوں سے متعلق خبروں کی وضاحت کریں گے۔
اس سے قبل پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے جمعے کو ملتان میں ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ جنرل باجوہ اور ان کے خاندان کی ملک سے باہر جائیدادوں اور کاروبار سے متعلق خبریں جلد واضح ہو جائیں گی۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے بھی ایک ٹوئٹ میں احمد نورانی کی رپورٹ کو عاصم باجوہ کے خلاف پراپیگنڈہ قرار دیا۔
احمد ںورانی کی رپورٹ پر وائس آف امریکہ نے پاکستان تحریک انصاف کے ایک عہدیدار سے سوال کیا کہ وزیرِ اعظم اس رپورٹ پر کیا رائے رکھتے ہیں؟ عمران خان کسی الزام کی صورت میں کسی بھی عہدیدار کے استعفی اور بے گناہی ثابت ہونے تک عہدے سے دستبردار ہو جانے کی وکالت کرتے رہے ہیں؟ یہ بھی سوال کیا گیا کہ میڈیا اس معاملے پر بات کیوں نہیں کر رہا، اگر ایسی رپورٹ کسی اپوزییشن کے رہنما کے بارے میں ہوتی تو کیا پھر بھی خاموشی ہوتی؟
اس کے جواب میں تحریک انصاف کے عہدیدار نے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، "میں اس پر تبصرہ نہیں کروں گا، لیکن یقین دلاتا ہوں کہ یہ سوالات 'اوپر' بھجوا دیے جائیں گے۔"
احمد نورانی نے بتایا کہ جب انہوں نے 'باجکو گروپ' سے متعلق تحقیقات کرنا شروع کیں تو پاکستان کے بعض سرکاری اداروں نے نہ صرف یہ کہ تعاون نہیں کیا، بلکہ اس سے منسلک آن لائن موجود کچھ ڈیٹا بھی ہٹا دیا۔
احمد نورانی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ باجوہ خاندان سے منسلک کاروبار کی تفصیلات 'سیکیورٹی ایکسچینج کمشن آف پاکستان' کی ویب سائٹ سے ہٹا لی گئی ہیں۔
اُن کے بقول خبر سامنے آنے کے بعد باجوہ خاندان کے کاروبار سے متعلق ڈیٹا اب دوبارہ اپ لوڈ کر دیا گیا ہے جس کے شواہد موجود ہیں، اور ان کی اگلی خبر اسی حوالے سے ہو گی۔