فیس بک نے پاکستان سے چلائے جانے والے متعدد ایسے جعلی اکاؤنٹس اور پیجز پر مشتمل نیٹ ورکس کو غیر فعال کر دیا ہے جن سے منظم مہم کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا تھا۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک نے ایک بلاگ پوسٹ میں کہا ہے کہ داخلی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ بعض نیٹ ورکس خطے میں مشتبہ مربوط سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
بلاگ پوسٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان سے چلائے جانے والے 453 فیس بک اکاؤنٹس، 103 پیجز اور 78 گروپس کو بند، جب کہ 107 انسٹاگرام اکاؤنٹس کو ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔
فیس بک کے مطابق ان اکاؤنٹس، پیجز اور گروپس کی اکثریت 'منظم انداز میں ایک دوسرے سے رابطہ کر کے ایسا مواد پوسٹ کر رہے تھے جن کا تعلق پاکستان یا بھارت کی مخصوص نوعیت کی حمایت سے تھا۔
فیس بک نے مزید کہا ہے کہ غیر فعال کیے جانے والے نیٹ ورکس کے زیادہ تر اکاؤنٹس پر پاکستانی فوج کی حمایت میں مواد موجود تھا اور یہ نیٹ ورکس حکومت کے ناقدین کو خاموش کرانے کے لیے بھی استعمال ہو رہے تھے۔
گزشتہ سال نومبر میں بھی فیس بک نے 103 پیجز، گروپس اور انسٹا گرام پروفائلز کو بلاک کر دیا تھا۔ فیس بک نے کہا تھا کہ یہ پیجز، گروپس اور انسٹاگرام اکاؤنٹس پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے اہل کاروں سے منسلک ہیں۔
پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیم 'بولو بھی' کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کہتے ہیں کہ فیس بک کی رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ ریاست جعلی اکاؤنٹس اور نیٹ ورکس کے ذریعے سوشل میڈیا کا غلط استعمال کر رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسامہ خلجی نے کہا کہ یہ باعث تشویش ہے کہ سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے رائے عامہ کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کے بقول جعلی اکاؤنٹس ایک بڑا مسئلہ ہے، تاہم فیس بک کی جانب سے ان جعلی اکاؤنٹس کی بندش خوش آئند ہے۔
خیال رہے کہ فیس بک نے اپنے حالیہ اقدامات میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت، روس اور دیگر ممالک سے بھی چلائے جانے والے متعدد نیٹ ورکس کو غیر فعال کیا ہے۔
پاکستان میں ڈیٹنگ ایپس پر پابندی
دوسری جانب پاکستان نے آن لائن پلیٹ فارمز پر غیر اخلاقی مواد ہٹانے کے اپنے نئے اقدام کے تحت پانچ ڈیٹنگ ایپس پر پابندی لگا دی ہے۔ جن ایپس پر پابندی لگائی گئی ہے ان میں 'ٹِنڈز، گرائنڈر، ٹیگڈ، سکاؤٹ اور 'سے ہائے' شامل ہیں۔
ٹیلی مواصلات کے نگران ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے بیان میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ ایپلی کیشنز کے غیر اخلاقی اور غیر مہذب منفی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان پلیٹ فارمز کی انتظامیہ کو ڈیٹنگ کی خدمات ختم کرنے اور مقامی قوانین کے مطابق لائیو اسٹریمنگ کے مواد میں تبدیلی کا کہا گیا تھا۔
پی ٹی اے کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ پلیٹ فارمز نے مقررہ وقت کے اندر نوٹسز کا جواب نہیں دیا، لہٰذا اتھارٹی نے ان ایپلی کیشنز کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
اتھارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ان کمپنیوں کی انتظامیہ مناسب لائحہ عمل کے تحت غیر اخلاقی اور غیر مہذب مواد کو مقامی قوانین کے مطابق تبدیل کرنے کی یقین دہانی کراتی ہے تو اتھارٹی اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر سکتی ہے۔
پی ٹی اے کے ترجمان خرم مہران نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بند کی گئی پانچوں ایپلی کیشن ڈیٹنگ ایپ ہیں، جن پر ایسا مواد موجود تھا جو پاکستان کے قانون کے مطابق غیر قانونی تھا۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ کمپنیوں کو نوٹس ارسال کیا گیا اور جواب نہ آنے پر پابندی لگائی گئی جو کہ برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 میں دیے گئے اختیار کے مطابق ہے۔
ان کے بقول مذکورہ قانون کی شق نمبر 37 پی ٹی اے کو اختیار دیتی ہے کہ غیر مناسب اور غیر اخلاقی مواد کو ہٹایا جائے یا بلاک کیا جائے۔
یاد رہے کہ آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھنے والا یہ قانون سابقہ دورِ حکومت میں بنایا گیا تھا جس پر سول سوسائٹی، سماجی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کی گئی تھی۔
ناقدین کے مطابق آن لائن سرگرمیوں سے متعلق قانون کو انٹرنیٹ پر اظہار رائے کو سلب کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور غیر اخلاقی مواد کے نام پر حکومت اور ریاستی اداروں پر تنقید کو ہٹایا جا رہا ہے۔
پی ٹی اے کے ترجمان خرم مہران کہتے ہیں کہ اتھارٹی انٹرنیٹ پر اظہار رائے کی آزادی پر یقین رکھتی ہے۔ تاہم یہ رائے کسی کی شخصی آزادی کے خلاف، توہین مذہب یا اشتعال انگیزی کا باعث نہیں بننی چاہیے اور یہ کہ پی ٹی اے بہت جانچ پرکھ کر صرف اسی مواد کو ہٹاتا ہے جو قانون کے مطابق ان کے دائرۂ اختیار میں آتا یے۔
گزشتہ ہفتے پی ٹی اے نے ویڈیو شیئرنگ ایپ یوٹیوب سے کہا تھا کہ وہ غیر اخلاقی، فحش اور نفرت انگیز مواد کو پاکستان میں دکھائے جانے سے روکے۔
جولائی میں اتھارٹی نے غیراخلاقی مواد نہ ہٹانے پر ویڈیو شیئرنگ سروس 'ٹک ٹاک' کو آخری وارننگ جاری کی تھی۔ جب کہ لائیو اسٹریمنگ ایپلی کیشن 'بیگو' پر پابندی لگائی تھی جو کہ 10 روز کے بعد اٹھا لی گئی تھی۔
پی ٹی اے کے مطابق ٹک ٹاک اور بیگو جیسی سوشل میڈیا ایپلی کیشنز پر موجود غیر اخلاقی مواد کے پاکستانی معاشرے اور نوجوان نسل پر منفی اثرات مرتب ہونے کی شکایات موصول ہوئی تھیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی سوشل میڈیا پر موجود قابلِ اعتراض مواد کا نوٹس لیا تھا اور یو ٹیوب جیسی ویب سائٹس کو مقامی قوانین کے مطابق ریگولیٹ کرنے کا کہا تھا۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر پی ٹی اے نے انٹرنیٹ آپریٹرز کو ہدایت کی تھی کہ وہ یہ یقینی بنائیں کہ صارفین غیر اخلاقی یا غیر قانونی مواد تک رسائی حاصل نہ کریں۔
پی ٹی اے کے ترجمان سے جب پوچھا گیا کہ کیا ایپس پر حالیہ پابندی سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ہے؟ تو خرم مہران کا کہنا تھا کہ عدالت کی تشویش توہین عدالت سے متعلق مواد سے تھی۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں توہین عدالت کا قانون موجود ہے اس لیے اتھارٹی کو اس قانون کی خلاف ورزی یا توہین عدالت سے متعلق مواد کو دیکھنا ہوتا ہے۔