ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران امریکی فوج سعودی عرب کے بحیرہ احمر کی بندرگاہ کے ساتھ ساتھ مزید دو ہوائی اڈے کھولنے کے امکان پر غور کر رہی ہے۔
امریکی فوج نے اس اقدام کو کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی تیاری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی فوج نے سعودی عرب کی ینبع بندرگاہ پر اپنا سامان اتار نے اور سامان لے جانے کا تجربہ کیا ہے۔ یہ بندرگاہ سعودی عرب کی اہم ترین تیل کی پائپ لائنوں کےقریب ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق بحیرہ احمر کی ساحلوں پر ینبع کے ساتھ ساتھ تبوک اور طائف میں امریکی ہوائی اڈے، امریکی فوج کو مزید متبادلات فراہم کریں گے، کیونکہ ان مقامات پر یمن سے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغی مشتبہ ڈرون حملے کرتے رہے ہیں۔
تاہم، یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات سن 2018 میں واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خشوگی کے قتل اور سعودی عرب کی یمن میں جاری جنگ کی وجہ سے کشیدہ ہیں۔ مسلمانوں کیلئے مقدس سرزمین پر امریکی افواج کی عارضی تعیناتی سے بھی، شدت پسند مشتعل ہو سکتے ہیں۔
سینٹرل کمان کے ترجمان، امریکی بحریہ کے کیپٹن بِل اربن کا کہنا ہے کہ نئے ہوائی اڈوں کیلئے جگہ کی تلاش گزشتہ ایک سال سے جاری ہے، اور اس کا آغاز سن 2019 میں سعودی عرب کی تیل کی صنعت پر ہونے والے ڈرون میزائل حملوں کے بعد کیا گیا تھا۔
ان حملوں سے سعودی عرب کی تیل کی پیداوار عارضی طور پر رک گئی تھی اور عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا۔ سعودی عرب اور امریکہ نے حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا تھا۔ ایران نے اِن حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا، جب کہ حوثی باغیوں نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ تاہم حملوں میں استعمال ہونے والے ڈرون بظاہر ایران کے تیار کردہ تھے۔
کیپٹن بل اربن نے بیان میں کہا ہے کہ یہ فوجی منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے معقول اقدامات ہیں جو کسی ہنگامی صورت حال میں، مزید سہولتوں کے عارضی اور مشروط استعمال کی اجازت دیتے ہیں، اور یہ کسی بھی لحاظ سے اشتعال انگیز نہیں ہیں، اور نہ ہی عمومی سطح پر خطے میں یا خصوصی طور پر سعودی عرب میں امریکی موجودگی کو وسعت دینے کی کوئی کوشش ہیں۔
یو ایس سینٹرل کمان کے سربراہ، یو ایس میرین جنرل فرینک مکینزی نے پیر کے روز ینبع کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران جنرل مکینزی کے ہمراہ سفر کرنے والے ڈیفنس ون اور اخبار وال سٹریٹ جرنل کے رپورٹروں نے ہی سب سے پہلے امریکی فوجی منصوبہ بندی کی خبر دی تھی۔ سعودی عہدیداروں نے ابھی تک اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔