سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے معاملے پر صدرِ مملکت کی جانب سے بھیجے گئے صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے محفوظ کر لی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن سویا ہوا ہے اور جاگنے کو تیار نہیں۔ الیکشن کمیشن نے کرپشن بھی روکنی ہے صرف انتخابات نہیں کرانے۔ بار بار پوچھا کرپشن روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے مگر کوئی جواب نہیں ملا۔
پاکستان بار کونسل کے وکیل عثمان منصور نے کہا کہ اگر سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے ہوا تو اس کا اثر تمام انتخابات پر ہو گا۔ درحقیقت الیکشن کا مطلب ہی سیکرٹ بیلٹ ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے جواب الجواب دیتے ہوئے کہا کہ ووٹ کا جائزہ لینے سے رازداری ختم نہیں ہوتی۔ سپریم کورٹ نے اس ریفرنس پر اپنی رائے دینے کے وقت کا اعلان نہیں کیا۔
جمعرات کو سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا کردار دنیا بھر میں بہت اہم ہے۔ ڈسپلن نہیں رکھنا تو سیاسی جماعتیں بنانے کا کیا فائدہ ہے۔
پاکستان بار کونسل کے وکیل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ اراکین قومی اسمبلی کا الیکشن براہ راست اور سینیٹ کا الیکشن متناسب نمائندگی کے ذریعے مکمل ہوتا ہے۔ کرپٹ پریکٹس کے خلاف اقدامات انتحابات سے پہلے ہونے چاہیئں۔
ان کا کہنا تھا کہ کرپٹ پریکٹس کے الزام کو شواہد کے ذریعے علیحدہ کرنا ہوتا ہے۔ کرپٹ پریکٹس کے الزامات کو بیلٹ پیپر کے ساتھ منسلک نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اصل مقصد تو کرپٹ پریکٹس کو ختم کرنا ہے۔ بیلٹ پیپر بذات خود ایک ثبوت ہے۔ اگر رقم اور بیلٹ پیپر کا تعلق سامنے آئے تو الیکشن کمیشن کو چیک رکھنا چاہیے۔
عثمان منصور نے کہا کہ درحقیقت الیکشن کا مطلب ہی سیکریٹ بیلٹ ہے، اگر سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کیا گیا تو اس کا اثر تمام انتخابات پر ہو گا۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے سوال صرف آرٹیکل 226 کے نفاذ کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب کرپٹ پریکٹس کو تسلیم بھی کر رہے ہیں خاتمے کے اقدامات کوئی نہیں کر رہا ہے۔ ہر جماعت شفاف الیکشن چاہتی ہے لیکن بسم اللہ کوئی نہیں کرتا۔
دورانِ سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل نے ادارے کی طرف سے مزید دلائل جمع کرائے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ قانون پارٹی کے خلاف ووٹ دینے کی اجازت دیتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ الیکشن کمیشن کے وکیل ہیں یہ دلائل کیوں دے رہے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن سویا ہوا ہے اور جاگنے کو تیار نہیں۔ الیکشن کمیشن نے صرف انتحابات ہی نہیں کرانے بلکہ کرپشن بھی روکنی ہے۔ ہم نے بار بار پوچھا کرپشن روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے کوئی جواب نہیں ملا۔
تمام فریقوں کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل خالد جاوید نے جواب الجواب میں کہا کہ ووٹ کا جائزہ لینے سے سیکریسی ختم نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ ریفرنس سیاسی نہیں آرٹیکل 226 کی تشریح کے لیے ہے اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے حتمی ہو گی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت عدالت کی رائے کی پابند ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ریفرنس پر نظرِ ثانی درخواستیں نہیں آ سکتیں۔
اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کیا ایسا فیصلہ درست ہو گا جس کے اثرات سیاسی ہوں اور نظرِ ثانی بھی نہ ہو سکے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت ہر چیز کا تفصیل سے جائزہ لے کر فیصلہ کرتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا سیاست سے تعلق نہیں۔ صرف آئین کی تشریح کریں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس ریفرنس پر جواب دیں یا نہ دیں اثرات سیاسی ہی ہوں گے۔
خالد جاوید کا جواب الجواب مکمل ہونے پر عدالت نے ریفرنس پر اپنی رائے محفوظ کر لی ہے۔ تاہم یہ یہ رائے کب تک سامنے آسکے گی اس بارے میں نہیں بتایا گیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ 28 فروری سے پہلے اس رائے سےآگاہ کر دیا جائے تاکہ تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں اسی کے مطابق فیصلے کیے جاسکیں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے بعد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت پر منحصر ہے کہ اس ریفرنس کے حوالے سے اپنی رائے صدر مملکت کو بھجوا دے یا پھر اوپن کورٹ میں اس کا اعلان کرے۔
صدارتی ریفرنس
سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے کے معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک صدارتی ریفرنس بھجوایا گیا تھا جس میں سپریم کورٹ سے آئین کی تشریح کرنے کی درخواست کی گئی تھی کہ آیا سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوسکتے ہیں یا صرف سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے ہی انتخاب ہو سکتا ہے۔
کیس کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان نے واضح طور پر عدالت کو آگاہ کیا ہے کہ سینیٹ انتخابات صرف سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے ہی ہو سکتے ہیں اور اس بارے میں آئین واضح ہے۔ اگر اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخاب کروانا ہے تو اس کے لیے الگ سے قانون سازی ضروری ہے۔ سندھ حکومت کے وکیل نے بھی الیکشن کمیشن کے مؤقف کی حمایت کی ہے اور الیکشن سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے کروانے پر زور دیا ہے۔
سماعت کے دوران عدالت نے مختلف آرٹیکلز کا حوالہ دیتے ہوئے اوپن بیلٹ سے الیکشن کروانے کے معاملہ پر وضاحت مانگی ہے۔
کیس میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ مختلف امیدوار نوٹوں کے بیگ لے کر گھوم رہے ہیں اور عدالتی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔