پاکستان کے صوبے پنجاب میں سینیٹ کی تمام 11 خالی نشستوں پر بلا مقابلہ منتخب ہونے والے امیدواروں میں مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر بھی شامل ہیں جنہیں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر پنجاب سے پانچویں مرتبہ سینیٹر بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے میڈیا کو جاری کردہ اطلاعات کے مطابق سابق وزیرِاعظم اور پارٹی قائد میاں نوازشریف نے رواں ماہ 12 فروری کو لندن سے خود ہی ساجد میرکو ٹیلی فون کر کے سینیٹ کے ٹکٹ کے اجرا کی اطلاع دی اورسینیٹر بننے کے بعد انہیں 25 فروری کو دوبارہ ٹیلی فون کر کے مبارک باد بھی دی۔
سینیٹر بننے کے بعد ساجد میر نے مرکزی جمعیت اہلحدیث کے فیس بک پیج پرجاری کردہ اپنے ویڈیو بیان میں نواز شریف کا شکریہ ادا کیا۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ شاید پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ رضا ربانی کے علاوہ پاکستان میں کوئی ایسا سیاست دان نہیں ہے جو پانچ مرتبہ سینیٹر منتخب ہوا ہو۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ سینیٹ میں بین الاصوبائی تعلقات کو بہتر بنانے سمیت دیگر امور کے حوالے سے ماضی کی طرح اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کریں گے۔
پروفیسر ساجد میرکون ہیں؟
بیاسی سالہ ساجد میر مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے سربراہ ہیں جو اہلِ حدیث مسلک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ وہ اس مذہبی جماعت کی قیادت 1992 سے کرتے چلے آرہے ہیں۔
ساجد میر قیادت سنبھالنے سے قبل کچھ سالوں تک نائیجیریا میں درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے جہاں سے 1985 میں وہ پاکستان واپس آئے۔
ساجد میر اہلِ حدیث مسلک کے مدرسوں کے نمائندہ بورڈ 'وفاق المدارس سلفیہ' کے سربراہ بھی ہیں۔
ساجد میر 2016 میں پاکستان میں خبروں کی زینت اس وقت بنے رہے۔ جب انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کے لیے زیرِ غور افسران میں سے ایک افسر کا تعلق احمدی کمیونٹی سے ہے اور مطالبہ کیا کہ مذکورہ نام کو آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے زیرِ غور ناموں کی فہرست سے نکالا جائے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔
مرکزی جمیعت اہلِ حدیث پاکستان میں مختلف مسالک اور فرقوں کی مذہبی جماعتوں کے اتحاد ‘متحدہ مجلس عمل' کا بھی حصہ ہے۔ البتہ اُن کی جماعت، عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے کے بجائے مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی حمایت کرتی رہتی ہے اور خود اُنہوں نے بھی 2002 میں ایم ایم اے کے ٹکٹ کے بجائے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پرسینیٹر بننے کو ترجیح دی تھی۔
مسلم لیگ (ن) ساجد میر پر اتنی مہربان کیوں؟
مسلم لیگ (ن) نے 1994 میں پہلی مرتبہ ساجد میر کو اپنی جماعت کے ٹکٹ پر پنجاب سے سینیٹر منتخب کرایا۔
بعد میں قربتیں اتنی بڑھیں کہ مسلم لیگ (ن) نے ساجد میر کے ساتھ ساتھ مرکزی جمیعت اہلِ حدیث کے ناظم اعلٰی حافظ عبدالکریم کو بھی 2018 میں پنجاب سے اپنے ٹکٹ پر ٹیکنو کریٹس کی نشست پر سینیٹر بنوایا۔ یوں ساجد میرکے بلامقابلہ منتخب ہونے کے بعد مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے دو مرکزی رہنما سینیٹ میں موجود ہوں گے۔
خیال رہے کہ حافظ عبدالکریم 2013 کے عام انتخابات میں ڈیرہ غازی خان سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر رُکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے تھے جس کے بعد وزیرِ مملکت برائے مواصلات کا قلم دان بھی ان کے پاس رہا۔
مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اور سابق سینیٹر نہال ہاشمی نے وائس آف امریکہ کو اس حوالے سے بتایا کہ پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی امیدواروں کی پارٹی سے وفاداری، پارلیمانی امور سے آگاہی، زندگی کے کسی بھی شعبے، مثلاً قانون، مذہبی امور، وغیرہ میں مہارت کو دیکھ کر سینیٹ کے لیے نامزدگی کرتی ہے۔
ان کے بقول ساجد میر کی جماعت مسلم لیگ (ن) کی اتحادی ہے جو ہمیشہ پارٹی کو درپیش مشکل حالات میں پارٹی قائدین کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں اور اسی لیے پارٹی انہیں سینیٹر بناتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ساجد میر ساتھ ہی ساتھ مذہبی امور کے ایک ماہر بھی ہیں۔
مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی مرکزی عاملہ کے رکن سید عامر نجیب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت ہے اور ہر مشکل دور میں ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ساجد میر یا مرکزی جمعیت اہلِ حدیث نے کبھی بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو سینیٹ کی نشست کے لیے درخواست نہیں کی بلکہ ان کے بقول ہمیشہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے خود بھی ساجد میر کو اپنے ٹکٹ پر انہیں سینیٹر کے لیے نامزد کیا ہے۔
ان کے بقول مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے تمام انتظامی و سیاسی فیصلے کوئی فردِ واحد نہیں، بلکہ 100 رکنی مرکزی عاملہ کرتی ہے اور میاں نواز شریف کا ساتھ دینے اور مسلم لیگ (ن) کے ساجد میر کے سینیٹر بننے کا فیصلے بھی مرکزی عاملہ نے ہی کیے ہیں۔
پاکستان کے مسلکی و فرقہ وارانہ گروہوں پر گہری نظر رکھنے والی محقق ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ ساجد میر کی بار بار سینیٹر بننے کی ایک اہم وجہ ان کا میاں نواز شریف کے ساتھ ذاتی مراسم کا ہونا ہو سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ساجد میر کو بار بار سینیٹر بنانے کی وجہ اہلِ حدیث مکتبۂ فکر کا ووٹ بینک ہرگز نہیں ہے۔
سعودی عرب کنکشن
تجزیہ کار بشمول عائشہ صدیقہ، ساجد میر کے متعدد بار سینیٹر بننے کو پاکستان کی سیاست میں سعودی عرب سے تعلقات سے بھی جوڑ رہے ہیں۔
عائشہ صدیقہ کے بقول سعودی عرب سے تعلقات کی بنیاد پر اہلِ حدیث مکتبۂ فکر خصوصاً مرکزی جمعیت اہلحدیث ووٹوں کے عددی اعتبار سے کمزور ہونے کے باوجود ملکی سیاست اور دیگر امور میں اہمیت کی حامل ہے اورشاید یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) ساجد میر کو پانچویں مرتبہ سینیٹر بنا رہی ہے۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ سعودی علمائے کرام اور شاہی خاندان کے افراد کے ساجد میر کی جماعت سمیت پاکستان میں اہلِ حدیث مکاتیب فکر سے خصوصی روابط ہیں۔ سعودی عرب کے اہم سیاسی اور مذہبی رہنما دورۂ پاکستان پر ان جماعتوں کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والی تقاریب میں شرکت بھی کرتے ہیں۔
ساجد میر سے قبل جماعت کے سربراہ علامہ احسان الہی ظہیر جب مارچ 1987 میں لاہور میں ایک جماعتی اجلاس میں بم دھماکے میں شدید زخمی ہوئے تھے تو انہیں اس وقت کے سعودی حکمران فہد بن عبدالعزیز کے کہنے پر علاج کے لیے سعودی عرب لے جایا گیا۔ مگر وہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے تھے۔ ان کی تدفین سعودی عرب کے تاریخی الباقی قبرستان میں کی گئی۔
اہلِ حدیث جماعتوں کی سیاست
اہلِ حدیث مسلک سے وابستہ اہم جماعتوں میں پروفیسر ساجد میر کی مرکزی جمعیت اہلِ حدیث، حافظ ابتسام الہی ظہیر کی جمعیت اہلِ حدیث، حافظ محمد سعید کی جماعت الدعوۃ اور کراچی میں فعال غربا اہلِ حدیث شامل ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد پنجاب کے شہری مراکز لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں اہلِ حدیث تنظیمیں فعال رہیں۔ البتہ 80 کی دہائی میں علامہ احسان الہٰی ظہیر کی قیادت میں جمعیت اہلِ حدیث پاکستان ایک متحرک تنظیم کے طور پر ابھری۔
علامہ احسان الہی ظہیر کی مارچ 1987 میں ہلاکت کے بعد ساجد میر کو جماعت کے مرکزی جنرل سیکریٹری کے فرائض سرانجام دینے کی ذمہ داری دی گئی۔
اس وقت جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے ساتھ ساتھ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے نام سے ایک پرانا دھڑا بھی فعال تھا جس کی قیادت شیخ معین الدّین لکھوی اور میاں فہدالحق کر رہے تھے۔
یہ دونوں دھڑے مشترکہ ہندوستان کی سطح پر دسمبر 1906 میں بہار ریاست کے قصبے آڑ میں ہونے والی آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس سے اپنے آپ کو جوڑتے تھے۔
بعد ازاں 1991 میں یہ دونوں دھڑے مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے نام سے متحد ہو گئے اور ساجد میر کو مرکزی امیر چنا گیا۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر کے بیٹے حافظ ابتسام الہی ظہیر نے 2004 میں ساجد میر کی پالیسیوں سے اختلافات کرتے ہوئے جمعیت اہلِ حدیث کے نام سے اپنی جماعت تشکیل دی۔ البتہ 17 سال بعد حافظ ابتسام الہی ظہیر نے مارچ 2018 میں اپنے اختلافات ختم کرتے ہوئے ساجد میرکی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے دھڑے کو مرکزی جمعیت اہلِ حدیث میں ضم کر دیا۔
اسی ماہ لاہور کے قریب کالاشاہ کاکو کے علاقے میں دو روزہ آل پاکستان اہلِ حدیث کانفرنس بھی منعقد کی گئی جس میں امام کعبہ ڈاکٹر صالح بن محمد ابو طالب نے خصوصی طور پر شرکت کی۔
حال ہی میں شدت پسندی سے وابستگی کی بنیاد پر کالعدم قرار دی گئی کالعدم جماعت جماعت الدعوۃ بھی اہلحدیث مسلک سے تعلق رکھتی ہے جنہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں ملی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔
کراچی میں فعال غربا اہلِ حدیث کے نام سے ایک جماعت سرگرم ہے جس کے سربراہ حافظ محمد سلفی ہے۔
تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں خصوصاً پنجاب اور سندھ میں اہلِ حدیث گروہوں خصوصاً مرکزی جمعیت اہلِ حدیث اور جماعت الدعوۃ کا اثرو رسوخ گزشتہ چند سالوں میں کافی وسیع ہوا ہے۔
مذہبی رہنماؤں کوسینیٹر بنانے کا رحجان
پارلیمانی سیاست پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے دیگر مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں یا علمائے کرام کو سینیٹر بنانے کا رحجان کافی عرصے سے چلا آ رہا ہے۔
کراچی میں مقیم صحافی عبدالجبار ناصر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے 1994 میں ساجد میر کو سینیٹ کا رکن بنانے سے یہ رحجان شروع ہوا۔
ان کے بقول متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم تلے 2002 کے انتخابات میں کراچی سے مذہبی جماعتوں کو ریکارڈ ووٹ ملنے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی جانب سے کراچی سے مختلف فرقوں اورمسالک کے علمائے کرام کو سینیٹ کے اراکین بنا کر ایڈجسٹ کرنا شروع کیا گیا۔ تاکہ جماعت کو مذہبی ووٹ مل سکے۔
ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر کراچی کے مذہبی رہنما عبدالخالق پیرزادہ، جعفریہ الائنس کے رہنما علامہ عباس کمیلی اور عالم دین مولانا تنویرالحق تھانوی سینیٹ کے اراکین منتخب ہو چکے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو 2018 میں خیبر پختونخوا سے ٹیکنو کریٹس کی نشست پر سینیٹ کے لیے نامزد کیا گیا مگر وہ صرف چار ووٹ حاصل کر سکے۔
رواں سال تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں پی ٹی آئی کی جانب سے جے یو آئی (س) کے موجودہ سربراہ مولانا حامدالحق کو سینیٹ کی نشست کے لیے نامزد کیا گیا مگر 25 فروری کو پی ٹی آئی کے دیگر خواہش مند امیدواروں کے ہمراہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے کرانتخابات سے دست بردار ہو گئے۔