عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے عالمی معیشت کی کارکردگی پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں رواں سال معیشت کی شرح نمو 1.5 فی صد رہے گی۔ حکومتِ پاکستان نے شرح نمو 2.1 فی صد جب کہ اسٹیٹ بینک نے تین فی صد رہنے کا امکان ظاہر کر رکھا ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال ملکی معیشت میں بہتری نظر نہیں آ رہی اور حکومت کے لیے اپنے اہداف پورے کرنا بھی خاصا مشکل ہو گا، جب کہ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت بجٹ خسارہ بڑھتا جا رہا ہے اور پالیسیوں میں استحکام نہ ہونے کے باعث معاشی صورتِ حال مزید خراب ہو رہی ہے۔
دوسری جانب وزیرِ خزانہ حماد اظہر کا کہنا ہے کہ حکومت آئندہ سال چار فی صد شرح نمو حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔
آئی ایم ایف رپورٹ میں ہے کیا؟
آئی ایم ایف کی جانب سے عالمی معیشت کی جاری کردہ کارکردگی کے مطابق 2020 میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو منفی اعشاریہ 4 فیصد رہی۔
آئی ایم ایف کی پیشگوئی کے مطابق پاکستانی معیشت کی شرح ںمو سال 2021 میں ایک اعشاریہ پانچ فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی ہے۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ 2022 میں پاکستان کا جی ڈی پی 4 فیصد تک پہنچ جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال 2020 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 10 اعشاریہ 7 فیصد رہی، 2021 میں مہنگائی کی شرح کم ہوکر 8 اعشاریہ 7 فیصد اور 2022 میں مہنگائی کی شرح مزید کم ہوکر 8 فیصد پر رہنے کی توقع ہے۔
رپورٹ کےمطابق ملک میں رواں مالی سال بیروزگاری کی شرح 5 فیصد تک پہنچ جائے گی جبکہ 2022 میں بیروزگاری کی شرح کم ہوکر 4 اعشاریہ 8 فیصد ہونے کی توقع ہے۔
حکومتی دعوؤں اور آئی ایم ایف کی پیش گوئی میں فرق، معیشت دان کیا کہتے ہیں؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے اہداف حاصل کرنا خاصا مشکل نظر آرہا ہے۔
معاشی اُمور کے ماہر اکبر زیدی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پالیسیوں میں استحکام نہ ہونے اور معاشی ٹیم کی بار بار تبدیلی سے صورتِ حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
اکبر زیدی کا کہنا تھا کہ اس وقت جو صورتحال ہے اس کے مطابق 1.2 یا زیادہ سے زیادہ 1.5 فیصد شرح نمو کی توقع ہے۔ ان کے بقول، اس وقت فوری طور پر کسی بہتری کی امید نہیں۔
معیشت کی شرح نمو کم رہنے کی وجوہات کے بارے میں اکبر زیدی نے کہا کہ اگر وزرائے خزانہ دنوں کے فرق سے تبدیل ہونگے، تو نہ معیشت بہتر ہوگی اور نہ ہی حکومت ٹھیک سے چلے گی۔
اکبر زیدی کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت افراط زر کی شرح 8.7 فیصد بتائی جا رہی ہے لیکن ان کے اندازے کے مطابق رواں مالی سال کے اختتام پر یہ شرح 9 سے 9.5 فیصد کے درمیان ہوگی۔
معاشی تجزیہ کار فرخ سلیم نے آئی ایم ایف کی رپورٹ پر حیرت کا اظہار کیا، جس کے مطابق صرف پاکستان اور نائیجریا کی اقتصادی شرح نمو 1.5 فیصد ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف یا ورلڈبنک کی پیشگوئی عام طور پر درست ہوتی ہے لیکن حکومت پاکستان کی پیشگوئی عام طور پر عوام میں امید قائم رکھنے کے لیے ہوتی ہے لیکن اس میں عام طور پر حقیقت نہیں ہوتی۔
فرخ سلیم نے کہا کہ اس وقت پاکستان کا بجٹ چار ہزار ارب روپے کے خسارے کا بجٹ ہے، ملک میں اس وقت کسی قسم کی سٹرکچرل ریفارمز نہیں ہورہیں، چاہے وہ بجلی کا سیکٹر ہو یا گیس، کسی جگہ کوئی ریفارم نہیں آرہی، اس وقت افراط زر بھی بڑھتا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آمدنی کے مطابق اخراجات ہونا چاہیں، لیکن ایسا ہونہیں رہا۔ ان کے بقول، بجٹ کا خسارہ اس سال 8 سے9 فیصدکے درمیان رہے گا، لیکن بجلی کا ایک ہزار ارب کا خسارہ نہیں دکھایا جارہا، گیس کا سرکلر ڈیٹ نہیں بتایا جارہا۔سات سو ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈ کی ادائیگی ہونی ہیں، ایسےمیں پاکستان کی معیشت کیسے چلی گی؟۔
فرخ سلیم نے کہا کہ گذشتہ کچھ مہینوں میں پاکستان کی صنعت میں بہتری آئی اور بہت سے آرڈر بالخصوص ٹیکسٹائل سیکٹر کے لئے موصول ہوئے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس کا ٹارگٹ 12 ملین بیلز کا تھا لیکن صرف ساڑھے پانچ لاکھ بیلز آئی ہیں۔ خطے میں بھارت سے کاٹن لینے کا معاملہ ایک دن بعد ہی بند ہوگیا، اب ایسے میں پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کیسے چلے گی۔
پاکستان حکومت کیا کہتی ہے؟
اس بارے میں پاکستان حکومت کے وزیر خزانہ حماد اظہرنے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ پاکستان کی معیشت اس سال کی پیش گوئی کے مقابلے میں تیز شرح سے ترقی کرے گی۔ ان کے بقول، اگلے مالی سال سے ہم اس سے بھی زیادہ شرح نمو کو ہدف بنائیں گے، جو سالانہ 4فیصد سے تجاوز کرسکتا ہے۔ یہ شرح نمو خسارے یا کم ہونے والے ذخائر پر مبنی نہیں ہوگی، بلکہ پائیدار ہوگی ۔
اس سے قبل اپنی ایک نیوز کانفرنس میں حماد اظہر کا کہناتھا کہ ہمیں چیلنجز کا احساس ہے اور مختلف شعبوں میں بہتری کے لیے کام کررہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم فارج ایکسچینج ریزروز اور لارج اسکیل مینوفکچرنگ میں بہتری لاچکے ہیں اور ان منصوبوں کی مدد سے ہم اپنی معیشت کو بہتر کریں گے۔
پاکستان کی 30 فیصد دیہی آبادی غربت کی کھائی میں گر چکی ہے
دوسری جانب ورلڈ بینک کی جاری کردہ تازہ رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کا قرضہ پروگرام بحال ہونے سے معاشی سرگرمیوں پر مختصر مدت کے لیے منفی اثر پڑے گا جب کہ کووڈ کے باعث بیروزگاری اور غربت پہلے ہی عروج پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق 30 فیصد دیہی آبادی غربت کی کھائی میں گرچکی ہے۔ پاکستان ڈیولپمنٹ اپ ڈیٹ نیوی گیشن ان سرٹن ٹائمز کے عنوان سے جاری کی گئی رپورٹ میں رواں مالی سال کے دوران معیشت کی شرح نمو 1.3 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے جو آئی ایم ایف کی پیش گوئی سے قدرے کم ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت کے لیے ایک بڑا چیلنج کورونا کی صورتحال بھی ہے، جس کے باعث پاکستان مکمل لاک ڈاؤن کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق نتائج اشارہ دیتے ہیں کہ کرونا کے باعث گذشتہ مالی سال کے دوران پاکستان میں غربت میں ممکنہ طور پر 2.3 فیصد اضافہ ہوا اور مزید 58لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جاچکے ہیں۔