یورپین فٹ بال کی نمائندہ تنظیم 'یوئیفا' کی دھمکی کے بعد مجوزہ سپر لیگ کرانے والے 12 میں سے چھ یورپی کلبوں نے منصوبے سے دست بردار ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
یورپ کے 12 نامور فٹ بال کلبوں نے پیر کو چیپمئنز لیگ اور کوپا کپ کی طرز پر 'یورپین سپر لیگ' کرانے کا اعلان کیا تھا جس پر فیفا اور یوئیفا کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آیا تھا۔
یوئیفا نے دھمکی دی تھی کہ اگر کسی کلب یا کھلاڑی نے سپر لیگ میں شرکت کی تو اس پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ یہی نہیں سپر لیگ کا حصہ بننے والے کھلاڑی فیفا ورلڈ کپ میں اپنی قومی ٹیم کی نمائندگی سے بھی محروم ہو جائیں گے۔
فٹ بال کی عالمی تنظیموں کی دھمکی کے بعد چھ کلبوں لیور پول، آرسنل، چیلسی، مانچسٹر سٹی، مانچسٹر یونائیٹڈ اور ٹوٹنہم ہاٹسپر نے سپر لیگ سے دست بردار ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ان تمام کلبوں کا تعلق برطانیہ سے ہے۔
یاد رہے کہ پیر کو سپر لیگ کرانے کا اعلان کرنے والوں میں برطانیہ کے لیور پول، مانچسٹر یونائیٹڈ، مانچسٹر سٹی، آرسنل، ٹوٹنہم ہاٹسپر اور چیلسی کے علاوہ اسپین کے تین بارسلونا، ریال میڈرڈ اور ایٹلیٹیکو میڈرڈ جب کہ اٹلی کے اے سی میلان، انٹر میلان اور یووینٹس شامل تھے۔
مذکورہ تمام کلبوں نے یورپین سپر لیگ کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ لیگ ایک متوازی لیگ ہو سکتی ہے لیکن یہ ڈومیسٹک اور یورپین ٹورنامنٹس کا متبادل نہیں۔ تاہم سپر لیگ کے اعلان کے ایک روز بعد ہی برطانیہ کے تمام چھ کلبوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔
آرسنل نے اپنی دست برداری کا اعلان کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ حالیہ عرصے کے دوران فٹ بال کمیونٹی کی بات سننے کے بعد ہم مجوزہ سپر لیگ سے دست بردار ہو رہے ہیں۔
ٹوئٹ میں مزید کہا گیا کہ ہم نے غلطی کی جس پر معافی مانگتے ہیں۔
لیور پول نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ لیورپول فٹ بال کلب اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ یورپین سپر لیگ کے مجوزہ منصوبے سے الگ ہو رہا ہے۔
مانچسٹر یونائیٹڈ نے کہا ہے کہ ہم سپر لیگ میں شرکت نہیں کریں گے۔ اسی طرح ٹوٹنہم ہاٹسپر نے بھی یورپین سپر لیگ کے مجوزہ منصوبے سے دست بردار ہونے کا اعلان کیا ہے۔
برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے اپنے ایک ٹوئٹ میں سپر لیگ سے دست بردار ہونے والے برطانوی کلبوں کے اعلانات کا خیرمقدم کیا اور کہا ہے کہ یہ فٹ بال کے مداحوں، کلبز اور ملک بھر میں دیگر کمیونٹیز کے لیے خوش آئند ہے۔
آرسنل فٹ بال کلب کا مؤقف تھا کہ گزشتہ چند دنوں میں انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ ان کے مداح ان سے اور فٹ بال سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ یہ انہی کی محبت تھی جس نے فٹ بال کلب کو اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد اپنے مداحوں کی دل آزاری ہر گز نہیں تھی، اسی لیے جب اس نئی لیگ میں شمولیت کی دعوت ملی تو انہوں نے دوسرے کلبوں کی تقلید کرتے ہوئے اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے حامی بھری۔ لیکن مداحوں اور فٹ بال کمیونٹی کے ردِعمل کے بعد وہ اس لیگ سے الگ ہونے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔
آرسنل کا یہ بھی کہنا تھا کہ فٹ بال کے نظام کو ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے جس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ کام کرنا ہو گا تاکہ جس معیار کی فٹ بال مداح چاہتے ہیں وہ انہیں ملے۔
ٹوٹنہم ہاٹسپر کے چیئرمین ڈینئل لیوی کا کہنا تھا کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یورپین سپر لیگ کی تجویز سے کھیل کے مختلف حلقوں سے ایسا ردِعمل آئے گا۔
اُن کے بقول جس وقت اس لیگ کی تجویز پیش کی گئی تھی تو ان کا خیال تھا کہ اس سے کھیل اور کھلاڑی دونوں کے مالی حالات بہتر کیے جا سکیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ مداحوں کو بھی بہتر مقابلے دیکھنے کو ملیں گے لیکن اگر کسی سے اس کی دل آزاری ہوئی تو وہ معذرت خواہ ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فٹ بال کے کھیل سے محبت کرنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، اس کو بہتر بنانے کے لیے منتظمین کو ایسے فیصلے کرنے پڑیں گے جس سے کھیل کی مقبولیت میں اضافہ ہو اور اس کا دائرہ وسیع کیا جاسکے۔
مانچسٹر یونائیٹڈ کی پریس ریلیز کے مطابق وہ بھی یورپین سپر لیگ کا حصہ نہیں ہوں گے۔ انہوں نے یہ فیصلہ اپنے مداحوں، برطانوی حکومت اور اسٹیک ہولڈرز کا ردِعمل سامنے آنے کے بعد کیا۔ کلب انتظامیہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ فٹ بال کے کھیل کے فروغ اور اسے درپیش مسائل کے حل کے لیے فٹ بال کمیونٹی کے ساتھ کام کرتا رہے گا۔
یورپین سپر لیگ کیا ہے اور اس میں بغاوت کا کیا پہلو شامل تھا؟
اسپین کے کلب ریال میڈرڈ کے صدر فلورینٹینو پیرز کو سپر لیگ کا پہلا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ جن کا کہنا تھا کہ فٹ بال دنیا کا واحد کھیل ہے جس کے چار ارب مداح ہیں اور بڑے کلب ہونے کے ناطے ان کی ذمہ داری ہے کہ اس کھیل کو اس مقام پر لے جایا جائے جہاں اسے ہونا چاہیے۔
سپر لیگ کے منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر 12 کلب سپر لیگ کے بانی ارکان میں شامل تھے جن کی تعداد 15 کی جانی تھی جب کہ منتظمین سپر لیگ میں 20 کلبوں کی شمولیت کا ارادہ رکھتے تھے۔
سپر لیگ میں شامل کلبز ساڑھے تین ارب یورو فٹ بال کے انفرااسٹرکچر کے منصوبوں اور کرونا وائرس کے اثرات سے اس کھیل کو نکالنے پر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
منتظمین کے مطابق وہ دیگر یورپی فٹ بال کلبوں کو 'اعزازی رقم' کی ادائیگی کریں گے جو یورپین فٹ بال ایسوسی ایشن (یوئیفا) کی جانب سے ادا کی جانے والی رقم سے کہیں زیادہ ہو گی۔
سپر لیگ کے منتظمین کو توقع تھی کہ آئندہ برسوں کے دوران فٹ بال پر سپر لیگ کی جانب سے خرچ کیے جانے والی رقم 10 ارب یورو تک بڑھ سکتی ہے۔
سپر لیگ کے منصوبے کی فرانسیسی صدر ایماںوئیل میخواں اور برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے مخالفت کی تھی۔ دونوں رہنماؤں نے یوئیفا کی حمایت میں الگ الگ بیانات بھی جاری کیے تھے۔
نئی لیگ کا ماڈل تو شاید چیمپئنز لیگ سے مختلف ہو سکتا تھا لیکن اس کا آغاز اگست، اختتام مئی اور فائنل کسی نیوٹرل مقام پر کرنے کی تجویز تھی لگ بھگ یہی شیڈول چیمپئنز لیگ کا ہوتا ہے۔
اس میں ٹیموں کی تعداد تو کم ہوتی لیکن کھلاڑی وہی ہوتے گراؤنڈ بھی وہی استعمال ہوتے اور سب سے بڑھ کر قوانین و ضوابط بھی یوئیفا کے لاگو ہوتے۔
اگر کرکٹ کی اصطلاح میں بات کی جائے تو یہ نئی لیگ متنازع انڈین کرکٹ لیگ (آئی سی ایل) جیسی ہوتی جسے ایک نجی ادارے نے اس وقت شروع کیا تھا جب بھارتی کرکٹ بورڈ انڈین پریمئیر لیگ کے انتظامات کر رہا تھا۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے مقامی بورڈ کا ساتھ دیا اور کچھ ایسا ہی فٹ بال کی عالمی تنظیم کے شانہ بشانہ کام کرنے والی یوئیفا نے کیا جب انہوں نے بغاوت کو سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل دیا۔
یوئیفا کو اس باغی سپر لیگ پر کیا اعتراض تھا؟
یورپین سپر لیگ پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ اس میں ٹیموں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے مقابلےکا عنصر کم اور تفریح کا پہلو زیادہ ہو گا نہ کسی ٹیم کو ایونٹ سے باہر ہونے کا خوف ہوگا اور نہ ہی کسی نئی ٹیم کو اس میں شامل ہونے کی جستجو۔
اس مجوزہ لیگ پر فٹ بال حلقوں کو یہ بھی اعتراض تھا کہ اس کا اعلان ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب یورپ کی فٹ بال ٹیموں کی نمائندہ تنظیم 'یورپین فٹ بال ایسوسی ایشن (یوئیفا)' چیمپئنز لیگ میں ٹیموں کی تعداد 32 سے بڑھا کر 36 کرنے کے ایک منصوبے پر دستخط کرنے جا رہی ہے۔
ایک اور اعتراض یہ تھا کہ اس لیگ کو شروع کرنے کا مقصد فٹ بال کی خدمت نہیں بلکہ پیسہ کمانا تھا۔ اسی لیے یوئیفا نے ایک مشترکہ بیان میں عندیہ دیا تھا کہ اگر کوئی کلب اس نئی لیگ کا حصہ بنا تو اس کی ڈومیسٹک، یورپ اور عالمی سطح پر کھیلے جانے والے ایونٹ میں شرکت پر پابندی لگا دی جائے گی۔
یوئیفا کے مطابق سپر لیگ کا حصہ بننے والے کھلاڑی اپنی قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے سے بھی محروم ہو سکتے ہیں۔
ایک طرف یوئیفا کو ڈر تھا کہ اس لیگ کی وجہ سے چیمپئنز لیگ کی اہمیت کم ہو جائے گی تو دوسری جانب کلبز کی انتظامیہ بھی سمجھ رہی تھی کہ وہ سپر لیگ کے ساتھ ساتھ موجود لیگز کا بھی حصہ رہیں گے۔
یورپین فٹ بال کے معاملات کیسے چلتے ہیں؟
جس طرح انگلش پریمیئر لیگ میں انگلش کلبز حصہ لیتے ہیں، اسی طرح جرمنی، اٹلی، فرانس اور دیگر ممالک کی لیگز کی ٹاپ ٹیمیں اپنے ممالک میں مقامی لیگز کا حصہ بنتی ہیں۔
ان تمام ممالک کی ٹاپ ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے جسے کلب فٹ بال سرکٹ کا ورلڈ کپ مانا جاتا ہے۔
رواں سال اس لیگ میں حصہ لینے والی ٹیموں کی تعداد 32 سے 36 کی جا رہی ہے تاکہ جو ٹیمیں اس میں شرکت سے محروم تھیں انہیں بھی موقع مل سکے۔
جو ٹیمیں مقامی لیگز میں اچھی کارکردگی کے باوجود چیمپئنز لیگ میں جگہ نہیں بنا سکتیں، انہیں یوروپا لیگ میں شامل کیا جاتا ہے۔ یوروپا لیگ یورپی فٹ بال کی دوسری بڑی لیگ ہے جس میں دوسرے درجے کی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔
یہ ٹیمیں اپنے ملک کی لیگز میں ٹاپ پوزیشن پر تو نہیں آتیں لیکن ان کا شمار نچلے نمبروں پر آنے والی ٹیموں میں بھی نہیں ہوتا۔ زیادہ تر ٹیمیں یا تو رنر اپ ہوتی ہیں یا پھر وہ ٹیمیں جو چیمپئنز لیگ میں جگہ نہ بنا سکی ہوں انہیں موقع دیا جاتا ہے۔
کیا سپر لیگ سے فٹ بال کلبز کو واقعی فائدہ ہو سکتا تھا؟
فٹ بال کا شمار دنیا کے مقبول ترین کھیلوں کے ساتھ ساتھ سب سے مہنگے کھیلوں میں بھی ہوتا ہے۔ یہاں فٹ بال کلب کسی بھی کھلاڑی کو اپنی ٹیم کا حصہ بنانے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سپر لیگ کا حصہ بننے والے کلبز کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے اس میں شامل ہوئے۔
سپر لیگ کے منتظمین کے مطابق اس میں شامل کلب کو میچز اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کی وجہ سے جو نفع ہوتا اس سے وہ کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کر سکتے ہیں۔
منتظمین پر امید تھے کہ کامیابی کی صورت میں وہ سپر لیگ کا حصہ نہ بننے والے کلبز کو بھی اعزازی رقم کی ادائیگی کرسکیں گے جو یوئیفا کی طرف سے دی جانے والی رقم سے کئی گنا زیادہ ہوتی۔ انہیں توقع تھی کہ آنے والے دنوں میں وہ سپر لیگ پر 10 ارب یورو تک خرچ کرنے کا سوچ سکتے ہیں، لیکن اب یہ سب مشکل نظر آتا ہے۔