رسائی کے لنکس

امریکہ آنے والے مہاجرین کی تعداد چار گنا بڑھائی جائے گی: بائیڈن


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کے روز ایک اعلان میں کہا ہے کہ وہ امریکہ آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کو بڑھا کر 62،500 کر رہے ہیں۔ یہ تعداد، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے مہاجرین کے لئے مقرر کی گئی سالانہ تعداد، یعنی 15 ہزار سے چار گنا زیادہ ہے۔

پیر کو ایک بیان میں صدر نے کہا ہے کہ ''اس مالی سال کے دوران میں امریکہ آنے والے مہاجرین کی تعداد 62،500 تک بڑھانے کا خواہاں ہوں''۔

انھوں نے کہا کہ گزشتہ انتظامیہ نے یہ تعداد 15000 تک رکھی تھی، جو امریکی اقدار کا مظہر نہیں تھی، کیونکہ بحیثیت قوم ہماری اقدار میں یہ بات شامل ہے کہ ہم مہاجرین کی حمایت اور خیر مقدم کرتے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں داخلے پر سے پابندیاں ہٹانے کے اس اقدام کے نتیجے میں ان کوششوں کی حوصلہ افزائی ہوگی، جن کا مقصد تارکین وطن کی زیادہ تعداد کو امریکہ آنے کی اجازت دلوانا ہے۔ تاکہ ہر سال امریکہ آنے والے مہاجرین کی تعداد 125،000تک لے جائی جا سکے۔

دو ہفتے قبل، وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا تھا کہ رواں مالی سال کے دوران مہاجرین کے امریکہ میں داخلے کی موجودہ تعداد 15000کی اسی حد پر قائم رہے گی، جس سطح کا تعین سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کر رکھا تھا۔ جنوری میں عہدہ صدارت کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران بائیڈن کا وعدہ اس سے مختلف تھا، جس میں اس تعداد کو بڑھانا شامل تھا۔ لیکن، دو ہفتے قبل ہونے والے وائٹ ہاوس کی طرف سے کئے گئے اعلان کی کانگریس میں موجود ڈیموکریٹس اور تارکین وطن کے حامیوں نے بھی سخت مخالفت کی تھی۔

وائٹ ہاؤس کے اہل کاروں نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ پہلے اعلان کا تاثر درست نہین تھا، جو ایک ایسے وقت پر بھیجا گیا جب ری پبلیکن ارکان امریکہ کی جنوبی سرحد پر مہاجرین کی آمد سے متعلق بائیڈن کی اختیار کردہ پالیسی کی مخالفت کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا ہے کہ مہاجرین کی حد 62 ہزار 5 سو تک بڑھانے کے نئے اعلان سے دنیا بھر میں مہاجرین کے معاملے پر امریکی اقدار کی مناسب غمازی ہوتی ہے۔

بیان میں صدر بائیڈن نے کہا کہ یہ اقدام اس لئے ضروری ہے کہ اس کی مدد سے دنیا بھر میں ان مہاجرین کے ذہن میں ایک عرصے سے حائل الجھن دور کرنے میں مدد ملے گی۔ جو ایک مدت سے تکلیفیں اٹھا رہے ہیں اور جنہوں نے بےحد بے چینی سے اپنی نئی زندگی شروع ہونے کا انتظار کیاہے۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم شائد اس سال 62،500 مہاجرین کو امریکہ میں داخل کرنے کا ہدف پورا نہ کر پائیں، لیکن ہم اس بات کے لئے کوشاں ہیں کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران ہونے والے نقصان کا مداوا کر سکیں۔ اس میں کچھ وقت لگے گا لیکن اس وقت یہ کام جاری ہے۔

ادھر صدر بائیڈن کے بیان کے فوری بعد، وزیرخارجہ انٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ بحیثیت قوم یہ ہمارے ڈی این اے کا حصہ ہے کہ ہم پناہ کے متلاشی لوگوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیا کرتے ہیں اور یہ بات ہمارے قومی مفاد میں ہے کہ جو لوگ ہجرت سے متعلق پروگرام کے لیے درخواست دیتے ہیں، ہم ان سے عزت و احترام اور منصفانہ سلوک سے پیش آتے ہیں۔

مہاجرین کے لئے کام کرنے والی تنظیم 'ریفیوجی انٹرنیشنل' کے صدر، ایرک پی شواٹز نے اس اقدام کو ''قابلِ فخر اور تاریخی'' قرار دیا ہے۔

'کیٹو انسٹی ٹیوٹ' کے تارکین وطن سے متعلق مطالعے کے سربراہ، الیکس نوراستے نے کہا ہے کہ مہاجرین کی تعداد میں اضافے کا اقدام خوش آئند ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سال ہم شاید اس نئی تعداد پر عمل درآمد نہ کرسکیں۔ بقول ان کے، ''مہاجرین سے متعلق اداروں کا کام اتنا بڑھ چکا ہے کہ ہم خوش قسمت ہوں گے اگر اس سال کے نئے ہدف یعنی 62500 کی ایک چوتھائی حد تک بھی پہنچ پائیں''۔

انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ''تارکین وطن کے نظام میں اصلاح، وسعت اور نجکاری کےحوالے سے بتدریج بہتری لائی جاسکتی ہے، تاکہ مستقبل میں کبھی سابق امریکی انتظامیہ جیسی حکومت آنے کی صورت میں بھی بیک جنبشِ قلم، اس اہم قومی پروگرام کو ختم نہ کیا جاسکے''۔

دوسری طرف امریکی ریاست ٹینیسی سے تعلق رکھنے والے ری پبلیکن قانون ساز اور ایوان نمائندگان کی مسلح افواج کی قائمہ کمیٹی کے رکن سکاٹ ڈیس جارلیس نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ گزشتہ ماہ بائیڈن نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ٹرمپ کی جانب سے طے کی گئی مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ حد پر ہی عمل پیرا رہیں گے۔ انھوں نے کہا کہ مہاجرین کی تعداد بڑھانے سے متعلق صدر کے نئے فیصلے کے نتیجے میں ''ہمارے ملک کی قومی سلامتی اور صحت عامہ کے تحفظ کو براہ راست خطرہ لاحق ہوسکتا ہے''۔

XS
SM
MD
LG