پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں موجود مختلف مذاہب کی قدیم اور تاریخی عبادت گاہیں مبینہ طور پر مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ حاصل نہیں کر پاتیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مقامات کی بحالی اور یہاں سہولیات کی فراہمی سے نہ صرف وزیرِاعظم عمران خان کی خواہش کے مطابق بین الاقوامی سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے، وہیں ایسے اقدامات سے مذہبی ہم آہنگی کو بھی تقویت ملے گی۔
خیبر پختونخوا کے علاقے ٹیکسلا، پنجہ صاحب (حسن ابدال)، ہری پور، مانسہرہ، تخت بائی، خان پور، دھرم پورہ (ایبٹ آباد)، سوات کے علاوہ ننکانہ صاحب (پنجاب) اور کنڈے رام کُنڈ (اسلام آباد) کے تاریخی مقامات دنیا بھر میں مذہبی مقامات کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں گندھارا تہذیب کے آثار دنیا بھر سے آنے والے ہندو، سکھ، مسیحی، بدھ مت اور جین مذاہب کے ماننے والوں کے لیے اہم ترین مقامات کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
ان مقامات کے علاوہ پشاور اور خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں قائم درجنوں دیگر مذہبی مقامات اور مراکز حکومتی اداروں کی عدم توجہی سے ویران ہونے کے باعث نظروں سے اوجھل ہو چکے ہیں۔
پشاور میں ہندو برادری، انسانی حقوق اور مذہبی ہم آہنگی کے لیے سرگرم کارکن ہارون سربدیال نے ان مقامات کے بارے میں تحقیق کی ہے۔
لگ بھگ ایک برس قبل انہوں نے مختلف اقلیتی مذہبی گروہوں سے تعلق رکھنے والے عمائدین اور رہنماؤں کے ایک وفد میں شامل ہو کر وزیرِاعظم عمران خان کو ان مقامات اور مراکز کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا تھا۔
ہارون سربدیال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ماضی میں جب آمدورفت کے ذرائع کم تھے تو زیادہ تر تجارت اور سفر سمندروں اور دریاؤں کے راستے کشتیوں کے ذریعے ہوتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اہم تاریخی تجارتی مراکز میں سکھر، خوش حال گڑھ، کوہاٹ اور خیرآباد اٹک نمایاں تھے۔ ان کے بقول خوش حال گڑھ، خیبر پختونخوا کی پنجاب کے ساتھ اہم اور مصروف ترین گزر گاہ ہے جب کہ خیر آباد اور اٹک، دریائے سندھ پر ایک دوسرے کے مدِمقابل خیبرپختونخوا اور پنجاب کو ملانے والے دو اہم علاقے ہیں۔
ان اہم مقامات کو نہ صرف موجودہ پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور وسطِ ایشیا کی تجارتی منڈیوں کی حیثیت حاصل رہی تھی۔ تاہم بعد میں جب دریائے سندھ پر برطانوی حکمرانوں کے آنے کے بعد جدید طرز کے پلوں کی تعمیر شروع ہوئی اور آمد و رفت کے جدید ذرائع سامنے آئے تو ان تینوں مقامات کی تاریخی اور تجارتی اہمیت ختم ہوتی گئی اور آج یہ تینوں مقامات نظروں سے اوجھل ہوچکے ہیں۔
پُشپ پورہ اور پُرش پُورہ کی تاریخی اہمیت
ہارون سربدیال کہتے ہیں کہ ہندوؤں کی مذہبی کتاب رامائن' کے مطابق لگ بھگ پانچ ہزار 129 سال قبل ہندو مذہب کے مراکز کا اجرا چارسدہ اور پشاور میں ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ چارسدہ کے بعد گندھارا اور راجپوتانہ تہذیب کے باعث پشاور کو بھی ہندو مذہب میں ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
پشاور کا آغاز گورو گورکھ ناتھ ٹمپل یعنی موجودہ گور گٹھڑی سے ہوا تھا جہاں دنیا بھر سے جوگی یاتری جوق در جوق آتے تھے اور ان جوگی یاتریوں کے مہمان خانے یا سرائے وغیرہ پشاور کے موجودہ محلے جوگیواڑہ میں ہوا کرتے تھے۔
گور گٹھڑی، پشاور میں ایک بلند چھوٹی پہاڑی پر واقع ہے اور برطانوی حکمرانوں کے آنے کے فوری بعد انیسویں صدی کے وسط میں یہاں پر سول انتظامیہ کے دفاتر کا اجرا ہوا تھا۔ اسی وجہ سے اس کو اب بھی تحصیل کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ محلۂ جوگیواڑہ، گور گٹھڑی کے مغرب میں ایک میدانی علاقہ ہے جہاں پر پرانے تاریخی، چھوٹے اور تنگ و تاریک بازار اب بھی قائم ہیں۔
پشاور شہر میں رہائش پذیر سکھ اور ہندو مذاہب کے زیادہ تر لوگ اب بھی اس محلے جوگیواڑہ میں رہائش کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی علاقے میں سکھوں کا ایک گوردوارہ اور ہندوؤں کا مندر بھی موجود ہے۔
ہارون سربدیال کے بقول جوگیواڑہ کے مہمان خانوں میں رہنے والے سکھ، ہندو یاتری صبح سویرے اٹھ کر اشنان کے لیے موجودہ جی ٹی روڈ پر واقع 'پنج تیرتھ' جایا کرتے تھے۔
پنج تیرتھ اب ہشنگری کے بیرونی علاقے میں قائم چاچا یونس پارک کے احاطے میں آ چکا ہے۔ پنج تیرتھ سے کچھ فاصلے پر شہر کے وسطی علاقے میں آسامائی گیٹ کے اندر ہندوؤں کے پانچ قدیمی اور تاریخی مندر ہیں۔
ہندو پنج تیرتھ میں اشنان کے بعد اپنے مندروں میں پوجا کرنے کے لیے جایا کرتے تھے۔ یہ پانچ مندر 1947 میں قیامِ پاکستان کے بعد بھارت اور اس کے زیر انتظام کشمیر سے ہجرت کرنے والوں کو تفویض کیے گئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر اب انتہائی مخدوش حالت میں ہیں۔
پشاور کی پہچان دیوی آسامائی کے نام سے ایشیا میں دو ہی تاریخی مندر ہیں۔ ایک کابل (افغانستان) میں ہندوؤں اور دیگر سیاحوں کی خصوصی توجہ کا مرکز ہے۔ جب کہ دوسرا پشاور کے قدیم تاریخی قصہ خوانی اور رامپورہ دروازے کے درمیان آسامائی گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی پانچ مندروں کا کمپلیکس ہے۔ جو اب کشمیری خاندانوں کی رہائشی کالونی بنام ‘کشمیری محلہ’ میں تبدیل ہو چکا ہے۔
پشاور کے علاوہ خیبرپختونخوا کے علاقوں چارسدہ، سوات، ایبٹ آباد، مردان، ڈیرہ اسماعیل خان، مانسہرہ، چترال اور دیگر علاقوں میں ہندومت، بدھ مت، سکھوں اور کی عبادت گاہیں اور مراکز موجود ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد جب برِصغیر کے مختلف علاقوں سے مذہبی بنیادوں پر نقل مکانی ہوئی تو پاکستان سے بھارت ہجرت یا منتقل ہونے والوں کی جائیدادیں اور املاک کے علاوہ مذہبی مراکز کی دیکھ بھال کے لیے متروکہ وقف املاک کے نام سے ایک ادارہ 1960 میں قائم کیا گیا۔
اس ادارے نے تمام جائیدادوں اور مذہبی مراکز کو تو کاغذات کی حد تک تحویل میں لے لیا مگر اب بھی زیادہ تر مذہبی مراکز عام لوگوں کے پاس ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت کا مؤقف
خیبرپختونخوا کے محکمۂ آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لیے عالمی بینک کے تعاون سے ایک منصوبے پر کام شروع کردیا ہے۔ مگر کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتِ حال کے باعث کام سست روی کا شکار ہے۔
انہوں نے کہ اس منصوبے میں 22 تاریخی مذہبی مقامات کی بحالی اور دیکھ بھال سرِ فہرست ہے اور ان مقامات کو ‘گندھارا ٹریل’ کا نام دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ منصوبے کا مقصد مذہبی و سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔
'قوانین موجود ہیں مگر ان پر عمل در آمد نہیں کیا جاتا'
پشاور کے تاریخی مقامات کی بحالی کے لیے قائم ادارے کے سربراہ شکیل وحید اللہ خان کا کہنا ہے کہ یہ تاریخی مقامات سیاحت کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں مگر حکومت کی عدم توجہی کے باعث یہ مقامات تباہی کے دہانے پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان مقامات کی دیکھ بھال کے لیے اقدامات اٹھائے۔
شکیل وحید اللہ کا کہنا تھا کہ ان تاریخی مقامات بشمول مذہبی مقامات اور مراکز کی دیکھ بھال کے لیے قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عمل در آمد نہیں کیا جاتا۔
وادیٔ کیلاش
دوسری جانب افغانستان کے سرحدی صوبے نورستان کی سرحد پر واقع خیبرپختونخوا کے ضلع چترال کی تین چھوٹی وادیوں میں کیلاشی آباد ہیں۔
حکومت اور غیر ملکی اداروں کے تعاون کے باوجود اب بھی وادئ کیلاش میں رہائش پذیر ان خاندانوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن نہ پاکستان بلکہ دنیا بھر سے لوگ وادئ کیلاش کی تہذیب سے آگاہی اور اسے دیکھنے جاتے ہیں۔
کیلاش تہذیب کے پیروکاروں کے بارے میں ماہرین کا مؤقف ہے کہ یہ لوگ یونانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباؤ اجداد اسکندر اعظم کے لشکروں میں ہندوستان فتح کرنے آئے تھے۔