پاکستان کے صوبہ خيبر پختونخوا کے ضلع سوات ميں اطالوی ماہرين کے تعاون سے جاری کھدائی کے دوران 1300 سال قديم ترک شاہی دور کا مندر دريافت ہوا ہے۔
سوات کی تحصيل بری کوٹ کے علاقے بازيرہ کو ایک قديم شہر تصور کيا جاتا ہے۔ اس کے ایک علاقے ميں کھدائی کے دوران سکندر اعظم سے لے کر ہندو شاہی دور کے آثار دريافت ہوئے ہيں۔
حاليہ چند ہفتوں کی نئی کھدائی کے دوران بازيرہ کے 'غنڈی' نامی پہاڑ ميں ایک عمارت کے آثار ملے ہیں جسے ماہرین ہندوؤں کی عبادت گاہ کی دريافت قرار دے رہے ہیں۔
اٹلی کے ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر لوکا ماريا اوليوری کہتے ہیں کہ يہ ايک بڑا مندر ہے جو کہ 1300 سال قدیم ہے۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو انہوں نے بتایا کہ يہ ہندو شاہی دور کی نشانياں ہيں۔ یہ مندر ساتوں صدی ميں بنايا گيا تھا۔
اس دور کے حوالے سے ڈاکٹر لوکا ماريا اوليوری نے بتایا کہ اُس وقت فرومو قيصر سوات کا بادشاہ تھا۔ اس کے بعد مسلم حکمرانوں کے دور کا آغاز ہوا۔ يہ مندر بھی اسی دور کا ہے جو اگلے ايک ہزار سال تک آباد رہا۔
آٹھ کتابوں کے مصنف فضل خالق کا تعلق وادی سوات سے ہے۔ انہوں نے تين کتب آثارقديمہ پر لکھی ہيں۔
مندر کی دریافت کے حوالے سے فضل خالق کہتے ہیں کہ يہ ايک بڑی کاميابی ہے کيونکہ بدھ مت کا دارالحکومت افغانستان ميں تھا اس لیے گندھارا تہذيب ميں ترک شاہی دور کے آثار بہت کم نظر آتے ہيں۔
فضل خالق کے مطابق سوات ميں آثار قديمہ کے حوالے سے کام کا آغاز 'ولی سوات' کے زمانے ميں ہوا جب اٹلی کے ماہر آثار قديمہ ڈاکٹر ٹوچی اس خطے میں آئے۔
ياد رہے کی ڈاکٹر ٹوچی کو تبت ميں ايک تحریر ملی تھی جس ميں 'آديانہ' کا ذکر ہوا تھا۔ اس تحریر کو لے کر ڈاکٹر ٹوچی سوات تک آئے اور يہاں وہ تمام آثار ملے جن کا اس تحریر ميں ذکر تھا۔ جس پر ڈاکٹر ٹوچی نے کہا تھا کہ کھويا ہوا آديانہ پھر سے دريافت کر ليا گيا ہے۔
سوات ميں آثار قديمہ کی کھدائی کا باقاعدہ آغاز 1956 ميں ہوا تھا۔ مبصرین اس کا سہرا ولی سوات 'مياں گل جہانزيب' کو ديتے ہيں۔
ايک معاہدے کے مطابق ايک ميوزيم سوات اور ايک اٹلی کے دارالحکومت 'روم' ميں بنایا گيا۔ کھدائی کا ايک حصہ سوات اور دوسرا حصہ روم کے ميوزيم بھيجا جاتا تھا۔
فضل خالق کے مطابق ترک شاہی دور ساتويں صدی عيسويں ميں شروع ہوا. اس کے بعد وسطی دور آتا ہے جو نويں صدی تک چلتا رہا اور اس کے بعد علاقے ميں اسلام آیا۔
وہ کہتے ہیں کہ 'غنڈی' پہاڑ کے ايک جانب دريائے سوات اور دوسری طرف بری کوٹ کی آبادی ديکھائی ديتی ہے۔ وادی سوات میں لا تعداد جگہ پر پرانے مقامات موجود ہيں۔ ہر سال آثار قديمہ کے ماہرين، ملکی اور غیر ملکی طلبا ان آثار پر تحقيق کے لیے سوات آتے ہيں تاکہ سوات کی تہذيب کا مطالعہ کر سکيں۔
ياسر حيات کا تعلق ایک مقامی کالج کے شعبہ تاریخ سے ہے۔ وہ بھی اس مندر کی کھدائی کے دوران ٹيم کے ساتھ تھے۔
یاسر حیات کا کہنا ہے کہ ان کی يونيورسٹی اور اٹلی کے مشن کا معاہدہ ہے جس کے مطابق جب کبھی بھی کھدائی ہو تو وہ وہاں جا کر اس تحقيق کا حصہ بنيں تاکہ مستقبل ميں ان کے کام آئے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے ياسر حيات نے بتايا کہ اس دورے کے دوران ان کو کافی کچھ ديکھنے اور سيکھنے کو ملا کہ کيسے کسی چيز کے ملنے کے بعد اس کی تصاویر لی جاتی ہیں۔ پھر کیسے پیمائش کا عمل ہوتا ہے۔ پھر صفائی کرنے کے بعد اس کا جائزہ ليا جاتا ہے کہ اس چیز کا تعلق کس دور سے تھا۔
ياسر حيات کے مطابق اس طرز کے دريافتيں سوات کی معيشت کے لیے بھی موزوں ہيں کيوں کہ اس سے بیرونی دنیا سے سیاح یہاں آئيں گے جس سے يہاں کے لوگوں کے لیے روز گار کے مواقع پیدا ہوں گے۔