طالبان ان افغان شہریوں کو، جنہوں نے گزشتہ کئی برسوں تک امریکہ اور نیٹو کی افواج کے لیے خدمات انجام دی ہیں، یقین دلا رہے ہیں کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد انہیں انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ دوسری طرف امریکہ نے افغان فورسز کو مضبوط بنانے کے لیے آئندہ دو سال کے لیے کابل کو ہر سال تین ارب 30 کروڑ ڈالر امداد دینے کا وعدہ کیا ہے۔
پیر کے روز ایک بیان میں طالبان نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے لیے مترجم کے طور پر کام کرنے والے افغان اپنی معمول کی زندگی گزار سکتے ہیں اور انہیں عسکریت پسند گروپ کی جانب سے کسی طرح کے خطرے کا سامنا نہیں ہو گا۔
بیان کے مطابق،’’اسلامی امارات انہیں پریشان نہیں کرے گی بلکہ انہیں ان کی معمول کی زندگی کی طرف لوٹنے کے لیے کہے گی اور اگر ان کی کسی بھی شعبے میں مہارتیں ہیں تو وہ اپنے ملک کے لیے خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ انہیں ہماری طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہو گا‘‘
طالبان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اگر یہ افغان شہری ایسے کسی خطرے کو سیاسی پناہ کے لیے جعلی مقدمے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے۔
کئی افغان مترجمین نے، جو غیر ملکی افواج کے لیے کام کر چکے ہیں، حالیہ دنوں میں کابل اور دیگر صوبوں میں مظاہرے کیے ہیں اور نیٹو اور امریکہ کی فورسز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کو سیاسی پناہ فراہم کریں، پیشتر اس کے کہ وہ ستمبر 2021 تک اپنے انخلا کا عمل مکمل کرتے ہیں۔
ان افغان مترجمین نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کو طالبان کی جانب سے براہ راست دھمکیوں کا سامنا ہے اور جب غیر ملکی افواج افغانستان سے چلی جائیں گی، تو ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوں گے۔
حالیہ دنوں میں امریکی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ 18 ہزار افغان مترجمین اور ان کے خاندانوں کو خصوصی امیگریشن ویزا فراہم کرے گی جنہوں نے گزشتہ 20 برسوں میں امریکی فورسز اور حکومت کے لیے خدمات انجام دی ہیں۔
تاہم ان مترجمین کو انتظار ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ دے۔
بائیڈن انتظامیہ پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ ان افغانوں اور ان کے خاندانوں کے لیے فوری اقدامات کرے، جنہوں نے امریکی فوج کے ساتھ کام کر کے اپنی زندگی کو خطرات سے دوچار کیا ہے۔
طالبان کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ وہ افغان جنہوں نے، ان کے الفاظ میں، غیر ملکی ’قابض‘ فوجوں کے لیے کام کیا ہے، وہ گمراہ ہو گئے تھے اور اب انہیں اپنے ماضی کے کاموں پر شرمندگی کا اظہار کرنا چاہیے۔
’’ ہم ان کو دشمن کے طور پر دیکھتے تھے جب وہ براہ راست ہمارے دشمنوں کی صفوں میں تھے، اب جب انہوں نے دشمنوں کی صفوں کو چھوڑ دیا ہے اور عام افغانوں کی طرح اپنے وطن میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں، ان کو کسی طرح کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا‘‘
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکہ کی ان بہادرافغان شہریوں کے لیے ایک خصوصی وابستگی اور ذمہ داری ہے۔
ایسے میں جب افغانستان سے بین الاقوامی سیکیورٹی فورسز کے انخلا کا عمل جاری ہے، ملک میں طالبان عسکریت پسندوں اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
زلمے خلیل زاد کابل میں، افغانستان کے لیے تین اعشاریہ تین ارب ڈالر سالانہ امداد
دوسری طرف امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد افغانستان میں ہیں جہاں انہوں نے پیر کے روز افغان وزیرخارجہ حنیف اتمر اور دیگر سیاست دانوں سے ملاقاتیں کیں اور غیر ملکی افواج کے اںخلا کے بعد دو طرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔
افغان حکومت کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران بتایا کہ امریکہ آئندہ دو برسوں کے لیے کابل کو ہر سال تین اعشاریہ تین ارب ڈالر فراہم کرے گا تاکہ افغان فورسز کی طالبان کے خلاف لڑائی میں مدد کی جا سکے۔
ترجمان محمد امیری نے بتایا ہے کہ افغان ائیر فورس کو مضبوط بنانے کے لیے امریکہ کی تنصیبات اور ہتھیار آئندہ دنوں میں ہونے والے دو طرفہ مذاکرات کا مرکزی موضوع ہوں گے۔