پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری کے اشاروں کے بعد ریاض نے پاکستان کو ادھار تیل کی فراہمی کی سہولت بحال کردی ہے۔
پاکستان کی حکومت نے سعودی عرب سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کے ادھار تیل کی سہولت دوبارہ دست یاب ہونے کی تصدیق کردی ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ادھار پرتیل حاصل ہونے سے پاکستان کو زرِمبادلہ کے ذخائربرقرار رکھنے میں مدد تو ملے گی لیکن قرض بڑھے گا اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو اینڈ فنانس ڈاکٹر وقار مسعود نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ تاخیری ادائیگیوں پر سعودی عرب سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر تیل کی فراہمی پراتفاق رائے ہوا ہے۔ تاہم انہوں نے اس معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا ہے۔
وزارتِ خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ دو ممالک کے درمیان خفیہ معاملہ ہے جس کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا جاسکتا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں گراوٹ کے باعث موخرادائیگیوں پر تیل کی فراہمی کے معاہدے پر عمل روک دیا تھا۔
سالانہ تین ارب ڈالر کے ادھار تیل کا معاہدے کے تحت سال 2020-2019 کے مالی سال میں پاکستان نے صرف پونے دو ارب ڈالر کی سہولت حاصل کی تھی۔
سعودی عرب نے 2018 کے آخر میں پاکستان کو چھ ارب 20 کروڑ ڈالر کا مالی پیکیج دیا تھا جس میں تین ارب ڈالر کی نقد امداد اور تین ارب 20 کروڑ ڈالرز کی سالانہ تیل و گیس کی موخرادائیگیوں کی سہولت شامل تھی۔
معاون خصوصی ڈاکٹر وقار مسعود نے 2018 میں سالانہ تین ارب ڈالر کے ادھار تیل کی فراہمی کے معاہدے کو ڈیڑھ ارب ڈالر تک محدود کرنے کے اسباب بتانے سے بھی معذرت کی ہے۔
حکومت نے حال ہی میں پیش کردہ بجٹ میں 6 کھرب 10 ارب روپے پٹرولیم لیوی کی مد میں جمع کرنے کا ہدف رکھا تھا جسے پر تنقید بھی سامنے آئی۔
قیمت اور ٹیکس پر فرق نہیں پڑے گا!
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو محدود رکھنا ضروری ہے جس کے لیے دوست ممالک سے ادھار کا حصول آئی ایم ایف معاہدے کے مطابق ہے۔
ماہرِمعیشت دان ڈاکٹر اکرام الحق کہتے ہیں کہ مؤخر ادائیگیوں پرتیل کے حصول سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم رکھنے میں وقتی طور پر مدد ملے گی لیکن اس سے تیل کی قیمت یا ٹیکس کی وصولی پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان سالانہ21 سے 22 ارب ڈالر کا تیل درآمد کررہا ہے جس سے زرِمبادلہ کے ذخائر کی کم سے کم حد تک برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے۔ اسی لیے حکومت ادھار پر تیل حاصل کررہی ہے۔
اکرام الحق کہتے ہیں کہ ادھار تیل کے حصول سے معیشت کو کوئی فایدہ نہیں ہوگا بلکہ مستقبل میں اس کا نقصان ہوگا کیونکہ یہ اس سے قرض کی صورت میں خسارے میں اضافہ کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایسے معاہدے پائیدار نہیں ہوتے بلکہ جیو پولیٹیکل ضروریات کے تحت ’کچھ لو کچھ دو‘ کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔
اکرام الحق کہتے ہیں کہ یہ پائیدار اور اچھی معیشت کی پالیسی نہیں اور اس سے اجتناب کرنا چاہئے تھا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس سعودی عرب نے ادھار تیل فراہم نہیں کیا تب بھی حکومت نے صورتِ حال کو سنبھال لیا تھا اب دوبارہ مشکل صورتِ حال پیدا نہیں کرنی چاہیے۔
واضح رہے کہ پاکستان کو غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کی کم سے کم حد برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے جو کہ زیادہ تر غیر ملکی قرض سے حاصل کیے گئے ہیں۔
’ادھار تیل ادائیگیوں میں توازن لائے گا‘
حکومتی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سعودی عرب کے علاوہ دو مزید ملکوں سے قلیل مدت کے لیے مؤخرادائیگی پر تیل کے حصول کے معاہدے حتمی مراحل میں ہیں۔ ان معاہدوں کے بعد ان ممالک سے بھی پٹرولیم مصنوعات کی ترسیل شروع ہو جائے گی۔
مالیاتی امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی خلیق کیانی کہتے ہیں کہ سعودی عرب سے ادھار تیل کے حصول کے معاہدے سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم ہوگا اور اس سہولت کی موجودگی میں ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر پاکستان کے اکاؤنٹ سے نہیں نکلیں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستان کو ڈیڑھ دو ارب ڈالر کا فنانسنگ گیپ کا سامنا تھا جو اس سہولت سے پورا ہوجائے گا۔
خلیق کیانی کے مطابق ادائیگیوں کے توازن کے حوالے سے یہ پاکستان کے لیے ایک اعتبارسے مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ حکومت نے بجٹ میں پٹرولیم لیوی کا جو ہدف رکھا ہے اس کا اس سہولت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ حکومت کے اس معاہدے کی تفصیلات سامنے نہیں ہیں تاہم وہ کہہ سکتے ہیں کہ 2018 میں سیاسی تعلقات میں تناؤ کے باعث جس معاہدے پر عمل نہیں ہوسکا تھا یہ انہی شرائط پر کوئی نیا معاہدہ ہوگا۔
سعودی عرب سے پاکستان کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالر ادھار تیل کی سہولت یکم جولائی سے شروع ہونے کا امکان ہے۔
خیال رہے کہ معاشی مشکلات کی وجہ سے پاکستان اپنے دوست ممالک سے مؤخر ادائیگیوں پر تیل حاصل کر رہا ہے۔
پاکستان اپنی تیل کی ضرورت پوری کرنے کے لیے زیادہ تر درآمد شدہ پیٹرولیم مصنوعات پر انحصار کرتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان سالانہ تقریباً 14 ارب ڈالر مالیت کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرتا ہے۔