پاکستان کی متعدد مختصر فلمیں بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں اور حال ہی میں آسٹریلیا میں ہونے والے پاکستانی فلم فیسٹیول میں کفایت رودینی کی مختصر فلم 'اندھا' تین ایوارڈز حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
مختصر فلم ’اندھا‘ میں معروف اداکار سلیم معراج کے ساتھ ساتھ کیف غزنوی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
اس فلم کی کہانی ایک حقیقی واقعے سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔
مختصر فلم کو 'بیدار یو ٹیوب ٹی وی' کی سیریز 'ویڈنگ نائٹ اسٹوریز' کی ایک قسط کے طور پر لکھا گیا تھا جسے بعد میں متعدد بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں بھیجا گیا۔
اب تک مختصر فلم 'اندھا' متعدد بین الاقوامی ایوارڈز اپنے نام کر چکی ہے جس میں رواں برس 'ممبئی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول' میں بہترین کہانی کا ایوارڈ اور 'پاکستانی فلم فیسٹیول آسٹریلیا' میں بہترین اداکار، بہترین اداکارہ اور بہترین اسکرین پلے کے ایورڈز شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ہی مختصر فلم 'اندھا' کی کولکتہ میں ہونے والے 'انٹرنیشنل شارٹ فلم فیسٹیول 2021' میں بھی اسکریننگ ہوئی تھی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی پاکستانی مختصر فلم کو بین الاقوامی سطح پر ایوارڈ سے نوازا گیا ہو۔
نوجوان ہدایت کار علی سہیل جورا کی مختصر فلمیں 'نانو اور میں' اور 'میں ہوں ارض پاکستان' پہلے ہی کئی فلم فیسٹیولز میں ایوارڈز اپنے نام کر چکی ہیں۔
گزشتہ برس اداکار و ہدایت کار عثمان مختار کی فلم 'بینچ' نے نیویارک میں ہونے والے 'ساؤتھ شارٹ فلم فیسٹیول' میں بہترین مختصر فلم کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اداکار و ہدایت کار عثمان مختار کا کہنا تھا کہ مختصر فلم فیسٹیول میں اپنا پراجیکٹ بھیجنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
ان کے بقول پاکستان میں مستقل بنیاد پر فلم فیسٹیول نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان ہدایت کاروں کا نقصان ہوتا ہے۔
عثمان مختار کا کہنا تھا کہ مختصر فلموں کی زندگی ایک سی نہیں ہوتی، جو مختصر فلم انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں چلی جاتی ہیں اور ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں، وہ لمبے عرصے تک یاد رہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایک شارٹ فلم اچھی بنی ہو تو وہ سال بھر دنیا کے فلم فیسٹیول کی زینت بنتی ہے اور جب وہ اس سرکٹ سے ہٹ جاتی ہے تو اسے کسی پلیٹ فارم یا یوٹیوب پر ریلیز کر دیا جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فلم کو باہر بھیجنے کا فیصلہ پروڈیوسر پر منحصر ہوتا ہے، اگر وہ فلم کو بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں بھیجنے کے لیے فیس بھی دینے کو تیار ہوتا ہے تو اس طرح وہ فلم کسی فلم فیسٹیول میں شرکت کر پاتی ہے۔
’سوشل میڈیا پر آنے کے بعد اچھی سے اچھی فلم بھی دو سے ڈھائی ماہ تک یاد رہتی ہے‘
اداکار عثمان مختار کا یہ بھی کہنا تھا کہ اچھی سے اچھی فلم بھی سوشل میڈیا پر آنے کے بعد دو سے ڈھائی ماہ تک ہی لوگوں کو یاد رہتی ہے۔
ان کے بقول ایک فلم میکر جو پاکستان میں پڑھ لکھ کر فلم بنانا سیکھتا ہے اس کا کام باہر تو لوگ پسند کر لیتے ہیں لیکن اس کے اپنے ملک میں لوگ اس کا کام نہیں دیکھ پاتے۔
مختصر فلم 'اندھا' میں مرکزی کردار ادا کرنے والی کیف غزنوی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب انہی فلموں کی شیلف لائف بڑھے گی اور نوجوان خود اپنی محنت سے اسے آگے لے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر فلموں کی تاریخ دیکھی جائے تو اس کی شروعات ہی مختصر فلموں سے ہوئی تھی۔ مکمل تفریح فراہم کرنے والی فیچر فلم کے آنے سے قبل ناظرین مختصر فلمیں ہی تو دیکھتے تھے۔
کیف غزنوی کے بقول یہاں جب فلم انڈسٹری کا آغاز ہوا تو ہمیں ایسے لوگ ملے جنہوں نے کام تو آگے بڑھایا لیکن دوسروں کو نہ سکھایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نوجوان اب میڈیا میں دلچسپی لے رہے ہیں اور انہیں مختصر فلمیں اس لیے سمجھ آتی ہیں کیوں کہ اس سے ان کا ہنر بھی سامنے آتا ہے اور اس میں پیسہ بھی زیادہ نہیں لگتا۔
کیف غزنوی کا یہ بھی کہنا تھا کہ فلم بنانا ایک مہنگا کام ہے، ہمارے ہاں سرمایہ دار فلموں پر پیسہ نہیں لگاتے اور اگر لگاتے بھی ہیں تو اس میں فیچر فلم بن ہی نہیں سکتی۔ اسی لیے مختصر فلمیں زیادہ بن رہی ہیں اور پسند بھی کی جا رہی ہیں۔
ان کے بقول جب تک زیادہ پلیٹ فارمز نہیں بنیں گے تب تک ہم صرف دنیا بھر میں ایوارڈز ہی بٹورتے رہیں گے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم قومیت کا جذبہ کیش کریں اور نئے پلیٹ فارم کے ذریعے ان شارٹ فلموں کی شیلف لائف بڑھائیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ لاک ڈاؤن کے بعد ڈیجیٹل پلیٹ فارمز مقبول ہو رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی مختصر فلموں میں ہمارا سفر نیا ہے۔
سنیما میں ریلیز نہ ہونے والی فلم بنانے کا مقصد کیا ہے؟
حال ہی میں ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے لیے مختصر فلم 'یارکی' کی ہدایت کاری دینے والے احسن رحیم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شارٹ فلمز کے ذریعے کوئی بھی ابھرتا ہوا آرٹسٹ اور ڈائریکٹر اپنی بات کہہ سکتا ہے اور اپنا ہنر دکھا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس جگہ ہماری فلم انڈسٹری پہنچ چکی ہے وہ ہر لحاظ سے تشویش ناک ہے اور سب کچھ زیرو پر آ چکا ہے۔
احسن رحیم کا کہنا ہے کہ یہاں نئے لوگوں کے لیے ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں وہ اپنے ٹیلنٹ کی نمائش کر سکیں اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آنے والی نسل خود راستہ بنالے تو بنالے لیکن حالات نہیں بدلیں گے۔
اداکار عثمان مختار نے کہا کہ پاکستان میں اتنی کہانیاں ہیں جو لوگوں کو سنائی جا سکتی ہیں لیکن لوگ یا تو مصالحے والے فارمیٹ پر جاتے ہیں یا پھر کسی بالی وڈ فلم کی کہانی اٹھا لیتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے فلم میکرز کو اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلنا ہو گا۔ شائقین کو اچھی چیز دکھائیں گے تو ان کا دماغ اچھی چیز کو سمجھے گا اور اس کی قدر کرے گا۔